ضائع نہ جائے گنگا کے اس یودھا کا بلیدان

مشہور ماحولیاتی رضاکار اور گنگا کی صفائی کے لئے جدوجہد کرنے والے یودھا گوروداس اگروال یعنی سوامی گیان سروپ سانند کی موت غمزدہ کرنے والی تو ہے ہی جس طرح انہوں نے موت کو گلے لگا وہ ہماری بے حسی کے نظام کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ گنگا کی صفائی کے لئے 111 دن بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہے پروفیسر جی ڈی اگروال نے جان دے دی ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی گنگا کی صفائی کے لئے تین بار انشن پر بیٹھ چکے تھے ۔ ان کی موت کے بعد ایک بار پھر گنگا کی صفائی کو لیکر بحث چھڑ گئی ہے۔ مودی سرکار کا کہنا ہے کہ اس نے گنگا کی صفائی کے لئے 21 ہزار کروڑ روپے کا اہم ترین پروجیکٹ ’’گنگا‘‘ شروع کیا ہے۔ مرکزی وزیر نتن گڈ کری کئی موقعوں پر یہ دعوی کرچکے ہیں سن2020 تک گنگا کی صفائی کا 70-80فیصد کام پورا ہوجائے گا۔ حالانکہ اس پروجیکٹ کا صرف10 فیصد ہی کام ابھی پورا ہوا ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ محض ایک سال کے کم وقت میں گنگا کی صفائی کیسے ہو پائے گی؟ سرکار میں نمابھی پروجیکٹ کے لئے کئی سطح پر حکمت عملی منصوبوں کا خاکہ تیار کیا ہے۔ اسٹیم آرٹ اہم حکمت عملی کے نقطوں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ ان میں خاص ہی گنگا کے کنارے سیور ٹریٹمنٹ پلانٹ بنانا۔ اسکیم کے تحت 63 سیویج مینجمنٹ پروجیکٹ اتراکھنڈ ، اترپردیش،بہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال میں قائم کئے جائیں گے۔ اب تک ان میں 12 پر کام چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہری دوار، وارانسی میں دو PPP ماڈل یعنی نجی شراکت کی بنیاد پر شروع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وہیں ندی کے کناروں کے ڈولپمنٹ کے تحت 182 گھاٹوں اور 118 شمشان گھاٹوں کو ماڈرنائزڈکیا جائے گا۔ پروفیسر اگروال چاہتے تھے کہ سرکار گنگا کو بچانے کے لئے پارلیمنٹ سے گنگا تحفظ مینجمنٹ ایکٹ پاس کرائے اور اگر وہ نہ ہوسکے تو آرڈیننس جاری کرے۔ نتن گڈکری نے اناؤ تک گنگا میں کچرے کے بہاؤ کو یقینی کرنے کی مانگ منظور کرلی تھی لیکن پروفیسر اگروال کا کہنا تھا کہ یہ پوری گنگا کو محفوظ کرنے کی اسکیم نہیں ہے۔ اس میں ان لینڈ آبی راستوں کی حفاظت ہوگی جن کا کمرشل مقصد ہے۔ حالانکہ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی پروفیسر اگروال کی موت پر دکھ جتا یاہے۔ پروفیسر اگروال نے 22 جون کو انہیں جو خط لکھا تھا وہ کافی سخت تھا۔ اس خط میں انہوں نے یوپی اے سرکار کے وزیر اعظم رہے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو موجودہ وزیر اعظم سے زیادہ سنجیدہ بتایا تھا۔ ان کا کہنا تھا ڈاکٹرسنگھ نے ان کے انشن پر غور کرتے ہوئے لوہاری ناگ پال کی 90 فیصد پورے ہوچکے پروجیکٹ کو بند کروادیا تھاجبکہ مودی سرکار نے گنگا کے تئیں چار برسوں میں کوئی قائدے کا کام نہیں کیا۔ آئی ٹی آئی کے پروفیسر رہے اور دیش کے آلودگی کنٹرول بورڈ کے پہلے سکریٹری پروفیسر اگروال کاوہخط دیش اور دنیا کے درمیان چھڑی جنگ چھڑکا ماحولیاتی تحریک اور خاص کر گنگا بچاؤ ابھیان کا ڈکلریشن دستاویز بن سکتا ہے۔پہلی بار جنوری 1986 میں راجیو گاندھی کے پردھان منتری کے عہد میں گنگا ایکشن پلان کی شروعات ہوئی تھی لیکن اسی کانگریس قیادت والی یوپی اے سرکار کے وقت گنگا سے ناجائز کھدائی روکنے کی مانگ کے ساتھ انشن کرتے ہوئے سوامی نگمانند سرسوتی نے جان دے دی تھی۔ سوامی کو تو نہیں بچایا جاسکا لیکن ان کی قربانی ضائع نہیں ہونی چاہئے۔ ایک آئینی اور جدید سائنس سے واقف رشی پروفیسر اگروال اس دنیا سے اٹھ گئے اس لئے انہوں نے صنعتی کچرے سے گنگا کو بچانے کے لئے جان دے دی۔ جو لوگ جدیدیت اور ماحولیات دونوں کی فکرمندی میں پھنسے ہوئے ہیں وہ ایسے ہی گنگا کے ساتھ وہ سوامی نگما نند ہوں تو کبھی گیان سروپ سانند کو جان دیتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ آشا ہے کہ ان لوگوں کا بلیدان ضائع نہیں جائے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟