آسا رام، گورمیت رام رحیم کے بعد اب رامپال

آسا رام اور رام رحیم کے بعد رامپال تیسرا ایسا بابا ہے جسے مجرمانہ معاملوں میں ملوث پایاگیا ہے۔ حصارکی اسپیشل عدالت نے ستلوک آشرم کے کنوینر اور خود ساختہ بابا رامپال کو قتل کے دو معاملوں میں بدھوار کو قصوروار قراردیا گیا۔ اس کے 26 ماننے والوں کو بھی قصوروار ٹھہرایا گیا۔ اس معاملہ میں 17 اکتوبر کو رامپال کو عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔ اس کے حمایتیوں کے پاس بیشک اس فیصلہ کو اوپری عدالت میں چنوتی دینے کا متبادل موجود ہے لیکن صاف ہوگیا ہے کہ بابا کو اب لمبے وقت تک جیل میں رہنا ہوگا۔آسا رام اور رام رحیم کے بعد وہ تیسرا بابا ہے جو قانونی شکنجے میں آچکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کئی ایسے سوال بھی اٹھے ہیں جو نہ صرف سماج میں بیداری پھیلانے کے محاذ پر کمزوری سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ ایسے باباؤں کے پنپنے اور پھلنے پھولنے میں سرکار اور سماج دونوں کی کمزوری و لاپرواہی کو ظاہر کرتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ نومبر 2014 میں ستلوک آشرم میں ایک خاتون کی مشتبہ حالت میں ہوئی موت کے معاملے میں گرفتاری کے سوال پر پولیس اور رامپال کے حمایتیوں کے درمیان تشدد پر مبنی ٹکراؤ ہوا تھا جس سے پانچ عورتوں اور ایک بچے کی موت ہوگئی تھی۔ اس کے بعد رامپال کے خلاف قتل کے دو معاملے درج ہوئے تھے۔ دراصل رامپال کی گرفتاری کے وقت پولیس کو جس جدوجہد سے گزرنا پڑا تھا اور اس دوران جوتشدد بھڑکا تھا وہ اپنے آپ میں بتانے کے لئے کافی ہے اس خودساختہ بابا نے اپنے حمایتیوں کے بوتے پر کس طرح ایک آزاد اور یکساں دنیا بنا لی تھی اور خود کو قانون سے اوپر ماننے لگا تھا۔ حصار کے بروالا قصبہ میں رامپال کا آشرم ایک قلعہ کی طرح تھا جہاں سے اسے گرفتار کرنے کے لئے پولیس کو باقاعدہ مورچہ لینا پڑا تھا۔ یہ فیصلہ جہاں سنایا گیا وہ عدالت جیل کمپلیکس میں ہی لگائی گئی تھی۔ یہ پہلا موقعہ نہیں ہے بیشک جب جیل میں ہی عدالت لگی ہو ۔ ایسے بہت سے بابا ہیں جن کے معاملوں کو حساس ترین مانتے ہوئے جیل میں ہی عدالت لگانے کا چلن بن گیا ہے۔ دراصل جب گرمیت رام رحیم کو سزا سنائی گئی تھی تب اس کے حمایتیوں نے تشدد برپا کیا تھا۔ آبروریزی کے معاملہ میں قصوروار ٹھہرائے جانے کے بعد سزا کاٹ رہے آسا رام کے حمایتیوں نے جس طرح سے قانون و نظام کو چنوتی دینے کی کوشش کی تھی۔ خود رامپال کے ستلوک آشرم میں عدالت کی ہدایت پر کارروائی کرنے پہنچی پولیس پر حمایتیوں نے حملہ کیا۔ اس کارروائی کے دوران آشرم میں پولیس کو ہتھیار بھی ملے تھے۔ ان سب باباؤں کے طورطریقے ایک جیسے ہوتے ہیں اور ان سب نے سماج کے محروم اور انتہائی پچھڑے طبقوں کے درمیان اپنا دبدبہ بنا کر انہیں ورغلانے کی کوشش کی۔ ان سب کی پردہ کے پیچھے کی زندگی عیش و آرام کی رہی اور بھولے بھالے لوگوں کے استحصال سے بھری رہی۔ سیاسی سرپرستی کے بغیر ان باباؤں کا اسٹیٹ اور ان کی تلسمی دنیا کھڑی نہیں ہوسکتی۔اب رامپال تا عمر جیل میں رہے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟