دہلی صرف دہلی والوں کی ہی نہیں ہے

دہلی کے گوروتیغ بہادر اسپتال میں علاج کو لیکر دہلی سرکار کے حکم کو مسترد کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ کی بڑی بنچ نے صاف کیا کہ دہلی صرف دہلی والوں کی ہی نہیں چیف جسٹس راجندر مینن و جسٹس وی کے راؤ کی بنچ نے کہا دہلی کو راجدھانی کے طور پر دئے گئے خصوصی درجے کے تحت اسے قومی راجدھانی علاقہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔بنچ نے دہلی کو لیکر سپریم کورٹ کے ذریعے جگدیش سرن بنام بھارت سرکار کے 1980 اور حال ہی میں بیر سنگھ بنام دہلی جل بورڈ کے معاملے میں کئے گئے تبصرہ کو فیصلے کی بنیادبنایا۔ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے فیصلہ میں کہا تھا کہ دیش کی راجدھانی صرف دیش کا ایک حصہ ہی نہیں بلکہ چھوٹا بھارت ہے۔ چیف جسٹس رنجن مینن کی بنچ نے دہلی سرکار کو سبھی مریضوں کا علاج اسی طرح کرنے کی ہدایت دی جیسا کہ ریزرویشن سے متعلق سرکولر جاری ہونے سے پہلے کیا جاتا تھا۔ عرضی گزار اشوک اگروال نے کہا دہلی سرکار کا آدیش دیش میں ووٹ بینک اور بانٹنے کی سیاست کرنے والوں کے منہ پرطمانچہ ہے اور سرکار کا کام عام شہریوں کو سہولیت دینے کا راستہ کھولنے کا ہے لیکن یہاں تو غریبوں کے لئے اسپتال کا دروازہ بند کیا جارہا تھا۔ ہائی کورٹ نے غریبوں کے حق میں فیصلہ دیا ہے اور صاف کہا کہ صحت کا حق سب کو ملنا چاہئے۔ دہلی سرکار کی جانب سے مستقل وکیل راہل مہرہ نے کہا کہ باہری مریضوں کے علاج پر کسی طرح کی پابندی نہیں ہے۔ دراصل اسپتال میں دہلی سے باہر سے آنے والے مریضوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اس سے اسپتال میں بھیڑ بڑھتی ہے۔ دہلی کے شہریوں کو بہتر علاج اور ہیلتھ خدمات مہیا کرانے کے لئے یہ پائلٹ پروجیکٹ تیار کیا گیا ہے۔ یہ سرکار کی پالیسی ہے اور عدالت اس میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ دہلی سرکار کے وزیر صحت ستیندر جین نے بتایا کہ سرکار عدالت میں اپنا موقف سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے ایسے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف بہتر تیاری کے ساتھ ہم سپریم کورٹ جائیں گی۔ انہوں نے کہا سرکار نے اسپتالوں میں سہولیت کو فروغ دیا ہے۔ اس سے مریضوں کی تعداد دوگنی تک بڑھ گئی ہے لہٰذا دہلی والے ان سہولیات کا فائدہ نہیں اٹھا پارہے ہیں۔ سرکار نے او پی ڈی و ایمرجنسی میں کسی طرح کا ریزرویشن نہیں کیا۔ بتادیں دہلی سرکار نے 1 اکتوبر کو گورو تیغ بہادر اسپتال میں دہلی کے مریضوں کے لئے 80 فیصدی اور اوپی ڈی کے 17 میں سے13 بیڈ کاؤنٹر ریزرو کرنے کے لئے سرکولر جاری کیا تھا۔ غیر سرکاری انجمن سوشل جورسٹ میں سرکار کے اس قدم کو آئین کی دفعہ 14 اور 21 کے تحت ملے حق کی خلاف ورزی بتاتے ہوئے اس سرکولر کو منسوخ کرنے کی مانگ کے لئے عدالت میں عرضی دائر کی تھی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟