جیسیکا قتل کانڈ جیسا واقعہ دوبارہ ہوتے ہوتے بچا

آر کے پورم سے لگے بھیکاجی کاما پلیس میں بنے پانچ ستارہ ہوٹل ’’حیات ریجنسی‘‘ میں سابق بسپا ایم پی راکیش پانڈے کے بیٹے آشیش پانڈے نے پستول کے زور پر نہ صرف لڑکا لڑکی کو دھمکایا بلکہ بیہودہ زبان کا بھی استعمال کیا۔ آشیش کا تذکرہ سوشل میڈیاپر خوب ہوا۔ کسی نے طنز کا تو کسی نے ہوٹل انتظامیہ کے سکیورٹی سسٹم کی خامی بھی گنا دی۔ اس واردات میں پہلی بارماڈل جیسیکا لال کے قتل جو 29 اپریل 1999 میں رات میں دہلی کے ٹریمریڈ کوٹ ریستوارں میں گولی مار کر قتل کردئے جانے کے واقعہ کی یاد دلا دی۔اس کی وجہ جیسیکا لال کے ذریعے منو شرما کو شراب پلانے سے منع کرنے کی چھوٹی سی بات تھی جس پر منو نے اسے گولی مار د ی تھی۔ منو ہریانہ کے بڑے لیڈرونود شرما کا بیٹا ہے۔ فاسٹ ٹریک عدالت نے جیسیکا کے قاتل منو شرما کو عمر قید کی سزا سنائی ہوئی ہے۔ حیات ہوٹل میں تقریباً ویسی ہی حالت بن گئی تھی فرق صرف اتنا تھا کہ آشیش پانڈے کو اس کے دوستوں نے حادثہ ہونے سے پہلے ہی گھسیٹ لیا اور ان کیو بی ایم ڈبلیو کار میں بٹھا دیا۔ متاثرہ گورو دہلی کے سابق کانگریسی ممبر اسمبلی کے بیٹے ہیں۔گورو کے مطابق وہ ریستوراں میں اپنی دوست کے ساتھ بیٹھے تھے۔فرینڈ کو الٹی آئی تو وہ اسے لیڈیز باتھ روم تک لے گیا۔ جھگڑا یہیں سے شروع ہوا۔ آشیش کے ساتھ آئی تین عورتوں ان سے بیہودگی سے پیش آئیں۔ باہر نکلے تو آشیش نے پستول تان لی۔ واردات 13 اکتوبر کی ہے۔ ویڈیو وائرل ہوا تو آر کے پورم تھانہ میں معاملہ درج کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پورے واقعہ کا ویڈیو کار میں بیٹھی ہی کسی لڑکی نے بنایا۔ متاثرہ لڑکی کے دوست نے ایک نیوز چینل کو بتایا کہ ملزم کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر میں ڈر گیا تھا۔ ہوٹل اسٹاف نے بیچ بچاؤ کرانے کی کوشش کی لیکن وہ بھی ڈرے ہوئے تھے۔ اس سارے واقعہ پر وزیر مملکت داخلہ کرن ریججو نے ٹوئٹ کیا کہ دہلی پولیس نے ہتھیار ایکٹ و آئی پی سی کے تحت مقدمہ درج کرکے کارروائی شروع کردی ہے۔ معاملہ میں سخت اور مناسب کارروائی کی جائے گی۔ پولیس نے اشیش پانڈے کو پکڑنے کے لئے دہلی اور لکھنؤ میں کئی جگہ چھاپے مارے ہیں۔ اس مضمون کے لکھتے وقت تک ملزم پکڑا نہیں جاسکا تھا اس کی تلاش کے لئے نوٹس جاری کیا ہے۔ مجھے 19 سال پہلے رونما جیسیکا لال قتل کی یاد آگئی اور دیش اور راجدھانی میں بڑھتے بندوق کلچر اور مغربی اثر کے سبب نوجوان طبقہ بھٹکتا جارہا ہے۔ نہ ہی انہیں سماج کی کوئی فکر ہے اور نہ ہی اپنی عزت کی۔چھوٹی چھوٹی باتوں میں غنڈہ گردی اور دبنگی عام ہوتی جارہی ہے۔ لڑکوں کو تو چھوڑ لڑکیوں کا آج برا حال ہے۔ ماں باپ نے تو انہیں ایسا کھلا چھوڑ رکھا ہے اور ان کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوجائے تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس میں ہم سماج اور بڑھتے مغربی کلچر کے اثر کو زیادہ قصور وار مانتے ہیں۔ ایسے قصوں میں پولیس کچھ نہیں کرسکتی۔ واردات کے بعد قصورواروں کو ضرور پکڑ کر انصاف دلا سکتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟