’’می ٹو‘ ‘ابھیان تیزی پکڑنے لگا ہے

جنسی استحصال کے معاملوں کو اجاگر کرنے کے لئے امریکہ میں بھی ’می ٹو‘ نام سے شروع ہوئی کمپین دنیا کے دیگر دیشوں میں بھی اثر دکھانے کے بعد بھارت میں بھی اب جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی جارہی ہے۔ ’می ٹو‘ اور ’یو ٹو‘ میں تشریح کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ مرکزی وزیر ایم جے اکبر کا نام آنے سے یہ سیاسی اشو بھی بن گیا ہے۔ اکبر پر اب تک پچھلے کچھ دنوں میں 9 عورتوں نے جنسی استحصال کا نام لگایا ہے۔ فلم دنیا سے لیکر میڈیا اور سیاست کی دنیا سے وابستہ کچھ بڑے نام عورتوں سے جنسی بدسلوکی کے الزامات سے گھر گئے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ دیہات سے لیکر قصبات اور شہروں تک لڑکیوں، عورتوں کی ایسی بڑی تعداد ہوگی جن کو کبھی نہ کبھی جنسی چھیڑ چھاڑ کا شکار ہونا پڑا ہے۔ یہ ہمارے سماج کی ایک تلخ سچائی ہے۔ بھارت میں اس مہم کا اثر دکھائی دینا اس لئے اچھا ہے کیونکہ یہ سچائی ہے کہ اپنے یہاں بھی عورتوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ خوشیال لوگ اپنے عہدے یا اثر کا بیجا استعمال کر عورتوں کو اپنی جنسی خواہش کا شکار بناتے ہیں لیکن می ٹو ابھیان ابھی تک زیادہ تر اونچے طبقے یا سوشالائٹ مانے جانے والی کچھ عورتیں ہی سامنے آئی ہیں جن میں زیادہ تر جنسی برتاؤ کے خلاف کارروائی کی وکالت کرتی ہیں۔ 20-20 سال پرانے مردے بھی اکھاڑے جارہے ہیں۔ حالانکہ ہمارا یہ بھی ماننا ہے کہ جنسی استحصال کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی کسی کو اس کے لئے مجبور کرے۔ اس میں کئی عورتیں بھی قصوروار ہیں۔ وہ کبھی کبھی اپنے کیریئر اور پوزیشن کو بڑھانے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں۔ جہاں ناجائز فائدہ اٹھا کر عورت سے جنسی استحصال ہوا اس کی ہم مذمت کرتے ہیں اور قصورواروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے لیکن محض شکایت کرنے سے کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہوجاتا۔ سوشل میڈیا میں ہیش ٹیک# میں ٹو پر عورتوں کے ذریعے کی جارہی جنسی ذیادتی کی شکایتوں کی قانون میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ قانون کی مشینری تبھی سرگرم ہوگی جب متاثرہ خاتون اس کی باقاعدہ شکایت پولیس میں کرے گی ، ورنہ الزام لگانے والی متاثرہ سنگین طور سے اس شخص کی بے عزتی کے دائرہ میں رہے گی جس پر اس نے الزام لگائے ہیں۔ سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل نے کہا کہ جنسی ذیادتی کی شکایت رجسٹرڈ کرانے پر ہی کوئی کارروائی ہوسکتی ہے۔ یہ شکایت آئی پی سی کی دفعہ 354( عزت سے چھیڑ چھاڑ، بے عزتی) ، دفعہ 376 کے تحت درج کی جاسکتی ہے۔ حالانکہ پولیس اس معاملے میں گرفتاری نہیں کرے گی کیونکہ اسے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ خاتون اتنے دن تک چپ کیوں رہی؟ ایسے معاملے جو کئی برس پرانے ہیں ان میں میڈیکل ثبوت نہیں ملیں گے۔ اگر ان کے پاس دیگر ثبوت جیسے الیکٹرانک ثبوت (ای ۔ میل، ویڈیو ریکارڈنگ، واٹس اپ) اسے بتا سکتے ہیں۔ ثبوت ملنے پر یہ معاملہ کورٹ میں ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک وقت آپ کے رشتے بہت اچھے رہے ہیں اپنی رضامندی سے خواہشات پوری کیں اور آگے جب رشتے خراب ہوگئے تو آپ نے اسے جنسی استحصال کا معاملہ بنا دیا۔ اگر کوئی عورت الزام لگا دے تو مرد کو قصوروار مان لیا جاتا ہے۔ اس کی صفائی بھی ہم سننے کوتیار نہیں ہوتے۔ یہ حالت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اگر کسی عورت کو اپنے ساتھ ہوئی بدفعلی کے لئے انصاف مانگنے کا حق ہے تو مرد کو بھی اپنا موقف رکھنے کا حق ہے۔ کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہمیں دونوں فریقوں کو سننا چاہئے۔ انصاف سب کے لئے برابر ہے اس لئے اس پر متوازن نظریہ ضروری ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ بھارت میں یکدم شروع ہوئے ’می ٹو‘ ابھیان کا انجام کیا ہوگا لیکن عورتوں کو جنسی استحصال بچائے رکھنے والا ماحول بنانا ہر کسی کی ترجیح ہونی چاہئے۔ امریکہ کی خاتون اول میلانیا ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتی کا الزام لگانے والی عورتوں کو سنا جائے لیکن مردوں کو بھی موقعہ ملنا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!