’’می۔ ٹو‘‘ ابھیان میں گئی اکبر کی سلطنت

بہت سی خاتون صحافیوں کی جانب سے لگائے گئے جنسی استحصال کے الزامات سے گھرے وزیر مملکت خارجہ و سینئر صحافی ایم جے اکبر کے پاس کیبنٹ سے استعفیٰ دینے کے علاوہ کوئی اور متبادل نہیں رہ گیا تھا۔ ساڑھے چار سال میں مودی سرکار کے اکبر پہلے وزیر ہیں جنہیں ایسے سنگین الزامات کے سبب عہدہ سے ہٹنا پڑا۔ الزام لگانے والی خواتین کی تعداد جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس میں اکبر سے استعفیٰ لیکر سرکار اور بی جے پی کو بے عزت ہونے سے بچا لیا۔مناسب تو یہ ہی ہوتا کہ وہ اپنے خارجی دورہ سے لوٹتے ہی استعفیٰ دے دیتے کیونکہ اس وقت تک کئی عورتیں ان پر جنسی استحصال کے الزامات لگا چکے تھیں۔ اپنے اوپر لگے داغ کو دھونے کے لئے دم خم کے ساتھ قانونی لڑائی لڑنے کا دعوی کرنے والے اکبر کو آخر کار جھکنا پڑا۔ اکبر کا استعفیٰ مانگ رہی کانگریس کی نہ تو یہ سیاسی جیت ہے اور نہ ہی اس سے پلہ جھاڑنے والی بھاجپا کی ہار ہے۔ یہ جیت ہے ’می۔ ٹو‘ مہم چلانے والی خواتین کی۔ جنہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے سرکار پر اتنا دباؤ بنا دیا کہ اکبرکو استعفیٰ دینا مجبوری بن گیا تھا ۔ اگر اکبر کو اخلاقی بنیاد پر استعفیٰ دینا ہوتا تو وہ جنسی استحصال کے پہلے الزام کے بعد ہی دے دیتے۔ لیکن 10 دن بعد غیر ملکی دورہ سے لوٹ کر استعفیٰ دیا اورصفائی پیش کرنے کے بجائے جارحانہ رخ اپنایا۔ الزام لگانے والی قریب 20 خاتون صحافیوں کو جھوٹا ٹھہرا رہے ہیں۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ اکبر کی دلیلوں میں دم نہیں ہے اور وہ بیحد کھوکھلی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سیاسی سازش کا شکار ہوئے ہیں۔ یعنی 20 خواتین صحافی اپوزیشن کے کہنے پر ان پر الزام لگا رہی تھیں وہ بھی سماجی ساکھ کو داؤ پر لگا کر۔ سرکار کے پاس متبادل محدود تھے۔ پہلے بھاجپا نے کہا کہ وہ اکبر کی طرف سے صفائی پیش کرنے کا انتظار کرے گی۔ پھر انہیں ایک سینئر وزیر کے رابطے میں رہنے کو کہا لیکن پارٹی نے نفع نقصان کا حساب لگانے کے بعد آخر کار ان سے استعفیٰ دینے کو کہہ دیا۔ قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال منگل کے روز اکبر سے ملنے پہنچے تو قیاس آرائیاں کی گئیں کہ وہ شاید استعفیٰ دینے کا سندیش لیکر گئے تھے۔ پارٹی نے انہیں سمجھایا کہ عدالت میں بطور وزیر ان کا پیش ہونا اور کیس لڑنا مناسب نہیں ہوگا۔ دراصل پانچ ریاستوں میں جاری چناؤ کمپین کے دوران سیاسی اشو بننے کے اندیشے نے پارٹی لیڈر شپ کے ہاتھ باندھ دئے تھے۔ راہل گاندھی نے کہنا بھی شروع کردیا تھا کہ ’بیٹی بچاؤ۔ بیٹی پڑھاؤ ‘ کا نعرہ دینے والی سرکار کے وزرا سے اپنی بیٹی بچاؤ۔یقینی طور پر جن صحافیوں نے اکبر کے خلاف سوشل میڈیا میں آرٹیکل وغیرہ کے ذریعے الزام لگائے ہیں ان میں سے کوئی بھی ان کے خلاف عدالت یا تھانے میں نہیں گئی (ایک کو چھوڑ کر) اور یہ بھی صاف ہے کہ اتنے برس بعد ان الزامات کوثابت کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اسی سال فلمی ستارے جتیندر پر بھی ان کے ایک رشتے دار نے 20 سال بعد جنسی استحصال کا الزام لگایا تھا۔ ممبئی ہائی کورٹ نے اسے آئی پی سی کی دفعہ کے تحت اس بنا پر خارج کردیا تھا کہ معاملہ پرانا ہے اور اتنے برسوں کے بعد نہ تو یہ ثابت ہوسکتا اور نہ ہی کوئی ثبوت بچا ہوگا۔ اس لئے ان خاتون صحافیوں کے لئے یہ ہی سب سے بڑی چنوتی ہے کہ وہ مختلف اداروں میں اپنے ساتھ ہوئے جنسی اذیت کو دلیل آمیز انجام تک پہنچائیں۔ دوسری طرف ایم جے اکبر خود پر لگے الزامات کے خلاف ایک شہری کے طور پر قانونی لڑائی لڑنا چاہتے ہیں لیکن دیش کے مشہور مدیر اور صحافی کی شکل میں انہیں پتہ ہوگا کہ کوئی خاتون اپنی عصمت اور ساکھ کو لیکر یوں ہی الزام نہیں لگاتی۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟