ججوں کی حفاظت پر اٹھے سوال، رکھشک ہی بھکشک بن گیا

گوروگروام میں سنیچر کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج کرشن کانت شرما کی سکیورٹی میں تعینات گن مین ہیڈ کانسٹیبل مہیپال کے ذریعے بیچ بازار جج صاحب کی بیوی اور بیٹے کو گولی مار دینے کا چونکانے والا واقعہ سامنے آیا ہے۔ واردات کے وقت ماں اور بیٹا سیکٹر 49 کی عالیشان آر کیڈیا مارکیٹ میں خریداری کرنے گئے تھے۔ ماں کوتین اوربیٹے کو دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے انہیں ایک پرائیویٹ اسپتال میں بھرتی کرایا جہاں ان کی حالت نازک بتائی جارہی ہے۔ شام 4 بجے یہاں سڑک کے کنارہ کارروکنے کے بعد جج کی بیوی رینو اور بیٹا دھرو جیسے ہی کار سے اترے گن مین ہیڈ کانسٹیبل مہیپال نے اپنی سروسز بندوق سے دونوں پر گولیاں چلانی شروع کردیں۔ چلاتے ہوئے مہیپال نے زخمی دھرو کو کار میں ڈالنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہوا۔ واردات کا ویڈیو بنا رہے لوگوں سے اس نے کہا کہ یہ شیطان ہے اور شیطان کی ماں ہے۔ اس کے بعد ماں بیٹے کو زخمی حالت میں چھوڑ کر فرار ہوگیا۔ پولیس نے ناکہ بندی کر گوڑگاؤں ،فرید آباد روڈ پر واقع گوال پہاڑی کے پاس اسے پکڑ لیا۔ مہیپال کی جانب سے سرے راہ فائرننگ سے بچنے کے لئے رینو اور دھرو نے چلاتے ہوئے مدد مانگی لیکن کوئی بھی مددگار آگے نہیں آیا۔ چشم دید مدد کے بجائے ویڈیو بنانے میں زیادہ مصروف تھے۔ ملزم مہیپال نارنول کا رہنے والا ہے اور پچھلے ڈیڑھ سال سے جج کرشن کانت کے ساتھ بطور سکیورٹی گارڈ تعینات تھا۔ قریب 8 ماہ پہلے اس نے ہندو مذہب چھوڑ کر عیسائی مذہب اپنا لیا تھا۔ اس کی جج کی بیوی کے ساتھ ناراضگی رہتی تھی۔ پولیس لاک اپ میں بھی وہ چلاتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ تبدیلی مذہب کو لیکر جج کی بیوی اسے پریشان کرتی رہتی تھی۔ ملزم واردات کے بعد اپنے دوستوں کے پاس اسلام پور پہنچا۔ ان سے جج کے خاندان کے ساتھ حادثے کی بات کہہ کر انہیں ساتھ چلنے کو کہا۔ جب وہ سبھاش چوک کی طرف چلا تو اس نے تیز رفتار میں دو آٹو کو ٹکر مار دی۔ شبہ ہونے پر دوست راستے میں اتر گئے اور پولیس کو خبر کردی۔ اس کے بعد ملزم کو گوال پہاڑی کے پاس سے دبوچ لیا گیا۔ اس واردات سے ججوں اور دیگر سینئر حکام کی سکیورٹی کو لیکر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ عدلیہ سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے اب جس کے ذمہ سکیورٹی ہے اگر وہی اس طرح کے واقعہ کو انجام دینے لگے تو یہ بیحد تشویشناک ہے۔ اس کے ساتھ ہی ججوں کے سکیورٹی گارڈوں کی جسمانی اور ذہنی حالت کی باقاعدہ جانچ کرنے کی مانگ اٹھنا فطری ہے۔ ایک سینئر وکیل کا کہنا ہے کہ عدلیہ اور پولیس کئی بار آمنے سامنے رہتے ہیں ۔ پولیس جو کام کرتی ہے اس پر عدلیہ سوال اٹھاتی ہے ایسے میں ججوں کی سکیورٹی یا ذمہ پولیس کی جگہ آر پی ایف یا کسی ایسی ایجنسی کو دئے جانے پر بھی غور کیا جانا چاہئے۔ رکھشک ہی جب بھکشک کی پوزیشن میں آجائے تو یہ حالت سب کے لئے تشویش کا موضوع ہے۔ اس لئے سکیورٹی گارڈوں کا ریگولر میڈیکل چیک اپ ہونا انتہائی ضروری ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟