آتنک واد کا ووٹ سے منہ توڑ جواب

جموں وکشمیر میں چار مرحلوں میں ہوئے تحریک بلدیاتی انتخابات منگل کے روز ختم ہوگئے۔وادی میں آخری مرحلہ میں بھی کم پولنگ ہوئی جہاں دہشت گردی سے متاثرہ کشمیر وادی میں کل 4.2 فیصد ووٹروں نے ہی ووٹ ڈالے۔ ووٹوں کی گنتی 20 اکتوبر کوہوگی۔ ریاست میں 13 سال بعد ہوئے میونسپل انتخابات سیاست کے لئے اچھا قدم ہے۔ چار مرحلوں میں ہوئے شہری میونسپلٹیوں و کارپوریشنوں میں جنتا کاحصہ لینا دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو شروع سے ہی جمہوری سیاست کٹر مخالف رہے ہیں۔ اس بار بھی انہوں نے دھمکی دی اور علیحدگی پسندوں نے چناؤ کا بائیکاٹ و بند کی اپیل کی۔ وادی میں دھمکیوں کی وجہ سے کئی وارڈوں میں ووٹ نہیں پڑے اور کئی امیدوار بلا مقابلہ چنے گئے لیکن جموں خطے میں ووٹروں میں کافی جوش دکھائی دیا۔ 2005 میں کرائے گئے میونسپل انتخابات میں تمام رکاوٹوں کے باوجود قریب 48 فیصد ووٹروں نے چناؤ میں حصہ لیا تھا۔ بدقسمتی سے اس مرتبہ کے چناؤ میں پردیش کی دو بڑی پارٹیوں نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی نے حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے دفعہ 35A کی آڑ لی ہے ریاست کی مقامی ترقی کی علامت میونسپل کارپوریشنوں کے چناؤ کا بائیکاٹ کرنے سے کیا ان کا مفاد حل ہوجائے گا؟ ریاست میں 13 سال بعد ہوئے میونسپل انتخابات میں نہ تو علیحدگی پسندوں کے بائیکاٹ کا جادو چلا اور نہ ہی دہشت گردوں کی دھمکی کا اثر۔ پاکستان اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر سے لگتے علاقوں میں پہلے تین مرحلوں میں 70 فیصدی سے زیادہ پولنگ ہوئی۔ چوتھے مرحلہ کے اعدادو شمار ابھی نہیں آئے ہیں۔ عوام نے جمہوریت پر اعتماد جتا کر پاکستان کوصاف پیغام دیا کہ ریاست کو کمزور کرنے کی ساز ش کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ جموں میں لوگوں نے 62 فیصدی پولنگ کر چناؤ بائیکاٹ کرنے والی پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس سمیت کئی سیاسی پارٹیوں کو آئینہ دکھا دیا۔ لداخ میں تو پولنگ کے لئے لوگوں کا جوش سر چڑھ کر بولا۔ چاہے کشمیرمیدانی ہو یا جموں لداخ، سمانگ سبھی جگہ سرحدی علاقوں میں جم کر ووٹ ڈلے۔ کشمیر کے اڑی ، سمبل، ہندواڑہ اور جموں سمانگ کے پونچھ، راجوری، سندر بانی، آر ایس پورہ، رام گڑھ، ارمیا، وشنا، نوشیرا سمیت دیگر مقامات پر کارپوریشن کے چناؤ میں کافی تعداد میں لوگ ووٹ کرنے کے لئے نکلے۔ جموں سمانگ کے پونچھ ، راجوری، کشتواڑ، ڈوڈہ، رام بن، بنیہال وغیرہ علاقہ وادی سے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ چناؤ بائیکاٹ کا اعلان کرنے والے علیحدگی پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی و میر واعظ فاروق ، عمر فاروق، یاسین ملک کے علاقوں میں بھی لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ دہشت گردی کا گڑھ ساؤتھ کشمیر میں بھی لوگ منہ ڈھک کر اور برقع پہن کر عورتیں بوتھوں تک پہنچیں ۔ دراصل ریاست کی زندگی میں مقامی ادارہ مختلف شکلوں میں اپنی اہمیت ثابت والے ہیں۔ بیشک علیحدگی پسندوں کی دھمکی کااثر وادی میں نہیں ہوسکا۔کل ملا کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہیں جموں و کشمیر کی عوام نے منہ توڑ جواب دے دیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟