پاکستان نے 10 مہینے میں درندہ کو پھانسی پر لٹکایا

بھارت میں آئے دن بچیوں کے ساتھ بدفعلی و اس کے بعد ان کے قتل کی خبریں اکثر آتی رہتی ہیں۔ ابھی دو دن پہلے ہی گجرات میں سورت میں اپنے گھرکے باہر سے لاپتہ ہوئی ساڑھے تین سالہ بچی کی لاش ملی ہے۔ بچی کو قتل سے پہلے اس کے ساتھ بدفعلی کی گئی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اس کی تصدیق ہوئی ہے۔ یہ سلسلہ کیوں نہیں رک رہا ہے؟ جواب ہے کہ ان درندوں کو کوئی خوف نہیں ۔ نربھیا کانڈ کو چھ سال گزر چکے ہیں۔16 دسمبر 2012 کے اس خوفناک واقعہ کے قصوروار ابھی تک پھانسی پر نہیں لٹکائے جاسکے۔ حال ہی میں یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تھا۔ عدالت نے 2012 کے اس نربھیا اجتماعی آبروریزی معاملہ میں تین قصورواروں کو پھانسی کی سزا کو عمر قید میں بدلنے کی درخواست خارج کردی تھی۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والی تین نفری بنچ نے اس معاملہ میں پھانسی کی سزا کو عمر قید میں بدلنے کی عرضی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پھانسی کا فیصلہ صحیح ہے اسے نہیں بدلا جائے گا۔ یہ تو صحیح ہوا لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کب ہوگی ان درندوں کو پھانسی؟ 6 سال گزر گئے ہیں اور ہم ابھی اپیلوں کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں؟ ہم سے تو ہمارا پڑوسی دیش پاکستان اس معاملہ میں بہت آگے ہے۔ پاکستان میں چھ سال کی بچی زینب انصاری سے بدفعلی اور اس کے قتل کے قصوروار عمران علی (24 سال) کو بدھوار کے روز (یکم اکتوبر 2018 ) کی صبح لاہور کی کورٹ لکھپت سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ پھانسی کے وقت مجسٹریٹ عادل سروور اور زینب کے والد امین انصاری موجود تھے۔ جیل میں ایک ایمبولنس بھی پہنچی تھی جس میں عمران کے بھائی اور اس کے دوست بھی تھے۔ زینب کے پتا نے کہا وہ کورٹ کے شکر گزار ہیں۔ خاندان کو انصاف ملا ہے۔ حالانکہ انہوں نے یہ بھی کہا پھانسی کا سیدھا ٹیلی کاسٹ ہوتا تو اور بہتر ہوتا۔ دراصل انصاری نے قصوروار کو کھلی جگہ پر پھانسی دینے اور اس کے سیدھے ٹیلی کاسٹ کی مانگ کرتے ہوئے عرضی داخل کی تھی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے اسے منگل کے روز خارج کردیا تھا۔ گھر سے لاپتہ ہوئی زینب کی پانچ دن بعد لاش کچرے کے ڈبے میں ملی تھی۔ یہ بات اسی سال 4 جنوری کی ہے۔ دو ہفتے کے بعد پولیس نے عمران کو گرفتار کیا تھا۔ واردات کے احتجاج میں قصور میں جسٹس فار زینب ریلی نکالی گئی تھی۔ عمران نابالغوں سے بدفعلی اور قتل کے معاملوں میں ملزم تھا۔ اس میں چار معاملوں میں ملزم پر کورٹ فیصلہ سنا چکی تھی۔ پاکستان کے جسٹس سسٹم اور عدلیہ نظام کی تاریخ رقم ہونی چاہئے۔ اسی سال جنوری میں واردات ہوتی ہے اور 10 مہینے بعد درندے کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ بھارت میں بدفعلی کے معاملہ میں آخری بار 14 سال پہلے 4 اگست 2004 کو کولکتہ کے دھننجے چٹرجی کو پھانسی دی گئی تھی۔ دھننجے کا کیس 14 سال تک چلا تھا۔ نربھیا کیس ابھی بھی چل رہا ہے۔ ہمیں پاکستان سے سیکھنا چاہئے۔ جب تک ان درندوں میں خوف پیدا نہیں ہوگا یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟