ہندو طالبانی کہنے پر سپریم کورٹ کی پھٹکار

ایودھیا رام جنم بھومی سماعت کے دوران جمعہ 20 جولائی کو مسلم فریق کے وکیل کی ایودھیا میں متنازعہ ڈھانچے کو گرانے کے واقعہ کو ہندو طالبانی کارروائی بتانے پر جم کر ہنگامہ ہونا فطری ہی ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی والی تین ججوں کی بنچ نے اس معاملہ پر جیسے ہی سماعت شروع کی ہندو فریق کی جانب سے پیش وکیل وشنو شنکر جین نے بنچ سے کہا مسلم فریق کے وکیل راجیو دھون کا ہندوؤں کو ہندو طالبانی کہنا بیحد غیر ضروری تھا۔ انہوں نے ہندوؤں کی بے عزتی کی ہے۔ اس لفظ سے انہیں گہرا صدمہ پہنچا ہے اور اس سے ہندوؤں کی ساکھ خراب ہوئی ہے۔ انہوں نے کورٹ سے ایسے لفظوں پر روک لگانے اور گائڈ لائنس دینے کی مانگ کی لیکن تبھی دھون کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا وہ اپنی بات پر قائم ہیں۔ ان کی بات کو اس پس منظر میں دیکھا جائے جیسے بامیان میں مسلم طالبانیوں نے بدھ کی مورتی توڑی تھی ویسے ہی 6 دسمبر 1992 کو متنازعہ ڈھانچہ توڑنے والے ہندو طالبانی تھے۔ تبھی وکیل کشور چودھری دھون کی بات پر زور زور سے چلانے لگے۔ چودھری نے کہا کہ آپ پورے ہندو فرقہ کو ہندو طالبانی کیسے کہہ سکتے ہیں لیکن دھون الفاظ دوہراتے ہوئے اپنی بات پر قائم رہے۔ اس پر بھگوان رام للا کے وکیل سی ایس بیدناتھن نے کورٹ سے دھون کے رویئے پر لگام کسنے کی مانگ کی۔ کورٹ میں شور بڑھنے لگا تبھی چیف جسٹس دیپک مشرا نے کہا کہ وکیلوں کو کورٹ کے وقار اور زبان میں تحمل کا خیال رکھنا چاہئے۔ تجربہ کیا گیا کہ لفظ غیرضروری اور معاملہ سے بالکل الگ تھا۔ ایسے لفظوں کا استعمال نہیں ہونا چاہئے لیکن دھون نے کہا کہ وہ اس سے متفق نہیں ہیں اور انہیں غیر متفق ہونے کا حق ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کوئی اڑا رہے تو کیا کیا جاسکتا ہے۔ بعد میں جسٹس اشوک بھوشن نے دھون سے بات ختم کرنے اور اہم معاملہ میں بحث شروع کرنے کو کہا۔ ادھر مسجد کو اسلام کا اٹوٹ حصہ نہ ماننے والے 1994 کے جج اسماعیل فاروقی فیصلہ کے حصہ پر پھر سے غور کرنے کے لئے پانچ ججوں کی آئینی بنچ کو بھیجنے جانے کی مسلم فریق کی مانگ پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔ راجیو دھون نے کہا کہ اس معاملہ کو آئینی بنچ کو بھیجا جانا چاہئے۔ اس پر ہندو فریق نے مانگ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اتنے برسوں بعد اس پر نظرثانی کی مانگ کرکے مسلم فریق ایودھیا تنازع کے اہم معاملہ کی سماعت میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں۔ ایودھیا کے مسئلہ پر سماعت جاری ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟