ان تین بچیوں کی موت کا ذمہ دار آخر کون

یہ کتنے دکھ اور شرم کی بات ہے کہ تین بچیوں کی موت بھوک سے تڑپ تڑپ کر ہوگئی۔ یہ دل دہلانے والا واقعہ مشرقی دہلی کے منڈاولی گاؤں کے پنڈت چوک کے پاس ایک مکان میں ہوا۔منگلوار کو مردہ ملی ان بچیوں کے پوسٹ مارٹم کے بعد لال بہادر شاستری اسپتال نے دیش کو شرمسار کرنے والا یہ انکشاف کیا کہ بچیاں شکھا، مانسی اور پارل کے پیٹ میں کھانے کی کسی بھی چیز کا حصہ نہیں ملا یعنی ان کی موت بھوک کے سبب ہوئی۔ ڈاکٹروں کے مطابق انہیں کئی دنوں سے کھانا نہیں ملا۔ دیررات جی ٹی بی اسپتال میں میڈیکل بورڈ نے دوبارہ پوسٹ مارٹم کرایا اس سے بھی بھوک سے موت ہونے کی تصدیق ہوئی۔ سینئر ڈاکٹروں نے بتایا کہ بچیوں کے پیٹ میں اناج یا کوئی چکنی چیز دونوں نہیں تھی۔ سب سے چھوٹی بچی کا جسم اتنا کمزور تھا کہ اس کے ہاتھ پیر ڈھانچے جیسے دکھائی دے رہے تھے۔ بچیوں کے والد منگل مکان مالک مکل مہرہ کا رکشہ چلاتا تھا۔ کچھ دن پہلے سماج دشمن عناصر نے نشیلی چیز سنگھاکر رکشہ لوٹ لیا۔ وہ کمرے کا کرایہ بھی نہیں دے پا رہا تھا۔ منگل کی بیوی وینا نے پولیس کو بتایا کہ سنیچر کو مکان مالک نے کمرے سے نکال دیا۔ اس کے بعد منگل بیوی اور بچے پنڈت چوک میں واقعہ دوست نارائن کے کمرے میں آگئے۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کھانا نہیں ملا اس سے بچیاں بیمار ہوگئیں۔ سنیچر کو پڑوسیوں نے بچیوں کو کھانا دیا۔ وہ بیماری کے سبب کھا نہیں پائیں۔ دوپہر کو بچیاں بیہوش ہوگئیں تو وینا انہیں لے کر ایل بی ایس اسپتال پہنچی جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دے دیا۔ 8 سال کی شکھا ،4 سال کی مانسی اور 2 سال کی پارل کی موت کا ذمہ دار آخر کون ہے؟ یہ دل دہلادینے والا واقعہ جہاں ایک طرف غریبوں کے لئے طرح طرح کی سہولیات دینے کا دعوی کرنے والی سرکاروں کو کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے وہیں سماج کے غیر سنجیدہ رویئے کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ یہ واردات لوگوں میں سماجی وابستگی ختم ہونے اور دوسروں کے دکھ درد سے منہ موڑنے کی پچھلے کچھ دنوں میں پیدا ہوئے ٹرینڈ کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ ایسا کئی باردیکھا گیا ہے کہ سڑک حادثہ کا شکار تڑپتے ہوئے شخص کو اسپتال لے جانے سے بھی لوگ کتراتے ہیں۔ یہ حالت انتہائی مایوس کن ہے۔ اگر کسی کو پیٹ بھر کھانا مل رہا ہے اور اس کے پڑوس میں بھوک سے بچیاں مر رہی ہیں تو یہ مہذب سماج میں قطعی قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اسے دیکھتے ہوئے مذہبی اور سماجی انجمنوں کو آگے آنا چاہئے اور سماج کو اور حساس رہنا ہوگا۔ یہ واقعہ تو دہلی کا ہے لیکن ایسے واقعات اور ریاستوں میں بھی ہوتے ہی ہوں گے لیکن خبریں نہیں آتیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟