کوئی بھی قانون اپنے ہاتھوں میں نہیں لے سکتا

دیش میں بھیڑ کے تشدد کے معاملہ بڑھتے جارہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے تو آئے دن ایسی خبریں آرہی ہیں جن میں لوگوں کا مشتعل گروپ کسی مشتبہ یا بے قصور ،نہتے شخص کو اپنے حساب سے نپٹارہا ہوتا ہے۔ اس طرح کے واقعات میں لوگوں کی جان تک جا رہی ہے۔ پچھلے دنوں الور میں گؤ اسمگلنگ ہونے کے شبہ میں ایک شخص کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا۔ اس سے پہلے بھی دیش کے کئی حصوں میں ایسے واقعات ہوچکے ہیں جن میں کسی کو بچہ چور ہونے کے شبہ میں پیٹ پیٹ کر مار دیا گیا یا دیگر اسباب سے ایسے واقعات قانون و نظام کی کھلی اڑانے والی اور ہندوستانی سماج کے چہرے کو داغدار کرنے کی شکل میں پیش کرنے والے ہیں۔پچھلے ہفتہ ہی سپریم کورٹ نے دیش کے الگ الگ حصوں میں بھیڑ تشدد کے ہاتھوں مارے جانے کے واقعات پر تشویش ظاہرکی تھی۔ سخت لہجے میں کہا تھا کہ جمہوریت میں کوئی بھی شخص قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا اور جمہوریت میں بھیڑ کو اس طرح کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ عدالت نے ان جرائم سے نمٹنے کے لئے سخت کارروائی کی گائڈ لائنس اور ہدایات جاری کی تھیں۔اسی لئے اس واقعہ کے بعد راجستھان سرکار کے خلاف توہین عدالت کی عرضی داخل کی گئی۔ اب اس معاملہ میں سپریم کورٹ سماعت کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کی بدامنی کے خلاف جہاں سرکاروں کو اپنی طرف سے قصورواروں کے خلاف سختی برت کر حالات میں بہتری لانا چاہئے کیونکہ لا اینڈ آرڈر ریاستی حکومتوں کا اشو ہے اس لئے جرائم پیشہ کے خلاف کارروائی کی ذمہ داری انہیں کی ہے،مرکزتماشائی نہیں بنا رہ سکتا۔ مرکزی حکومت کی طرف سے ان ماب لنچنگ کے واقعات سے نمٹنے کے لئے آئی پی سی کے اندر الگ سے شق شامل کرکے نیا قانون بنایا جائے گا۔ اگر بھیڑ تشددسے نمٹنے کے لئے مخصوص قانون ہوجائے تو پولیس انتظامیہ کے لئے بھی اس کے تحت مقدمہ و قانونی کارروائی آسان ہوجائے گی۔ پولیس کو ابھی دیگر جرائم کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنا پڑتا ہے۔ کسی وجہ سے ایک ہی طرح کے جرائم کے لئے الگ الگ ضلعوں میں بھی یکساں دفعات نہیں لگائی جاتیں۔ نئے قانون کے بعد قانونی کارروائی میں ایک طرح کی تبدیلی آجائے گی۔ ایک دلیل یہ ہے کہ نئے قانون کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے سے ہی ایسے قانون موجود ہیں جن کے ذریعے بھیڑ کے تشدد کے رویئے والے معاملوں سے نمٹا جاسکتا ہے۔ بد قسمتی تو اس بات کی ہے کہ اب لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لینے سے نہیں ڈرتے اور خود ہی فیصلے کرنے پر آمادہ ہیں۔ نہ تو انہیں قانون کا ڈر ہے اور نہ پولیس کا۔ یہ شاید اس لئے ہورہا ہے کیونکہ ان لوگوں کاقانون و انتظامیہ و سرکار سے بھروسہ اٹھ چکا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ سرکار ، پولیس ہمارا کیا بگاڑ لے گا۔ جنتا میں قانون کا ڈر بٹھانا ہوگا، پولیس کی وردی کا ڈر پیدا کرنا ہوگا۔ یہ معاملہ صرف قانون سے نمٹنے والا نہیں ہے۔ عام جنتا کو اس کے لئے بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی کسی کو سزا دینے کا کام اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا اور جو کرے گا وہ سخت سزا کا حقدار ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟