کیتھولک بیشپ پر آبروریزی کا مقدمہ
دیش میں آبروریزی کے واقعات کا سیلاب سا آگیا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں نکلتا جب دل دہلانے والی آبروریزی کی واردات کی خبر نہ آتی ہو لیکن ایسی واردات واقع ہوئی ہے جس کی ہم کم امید یا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ وہ ہے کیرل میں گرجا گھر کے بیشپ(پادری) کے خلاف بدتمیزی کا مقدمہ۔ کیرل میں کیتھولک گرجا کھر کے بیشپ کے خلاف آبروریزی کا مقدمہ درج ہوا ہے۔ ایک نن کا الزام ہے کہ بیشپ نے 13 بار اس سے جنسی استحصال کیا۔ ملزم بیشپ جالندھر میں واقع ڈایوسس کیتھولک چرچ میں کام کرتا ہے۔ پولیس کو دی گئی اپنی شکایت میں نن نے الزام لگایا کہ رومن کیتھولک چرچ کے جالندھر دھرم پرویش کے بیشپ نے چار سال پہلے پاس کے ایک قصبے میں کئی بار اس سے جنسی استحصال کیا۔ بیشپ فرینکو شرومنی اکالی دل کی لیڈر شپ کے کافی قریب مانے جاتے ہیں۔ 44 سالہ نن کا الزام ہے کہ سائرے مالابار کیتھولک چرچ سے بیشپ فرنکو ملکل کے خلاف شکایت کی گئی تو چرچ نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس کے بعد اسے پولیس کی مدد لینی پڑی۔ نن کا کہنا ہے کہ 2014 میں ضلع کے کراول گڑھ علاقہ میں ایک یتیم خانے کے قریب واقع گیسٹ ہاؤس میں پہلی بار اس سے جنسی بدفعلی کی گئی۔ متاثرہ نن پنجاب میں ڈایوسس کیتھولک چرچ کے تحت چلنے والے ایک ادارہ میں کام کیا کرتی تھی۔ اس ادارہ کے چیف بیشپ فرنکو (54 ) سال ہے۔ نن سے وابستہ قریبی ذرائع کے مطابق اس نے کیرل کے اس وقت کے چرچ کے چیف کاڈینل ایلن میری سے اس کی شکایت کی تھی لیکن چرچ کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اس پر انہوں نے پولیس میں شکایت درج کرائی۔ کیرل پولیس کے حکام کی ایک ٹیم اس جنسی استحصال معاملہ میں نن کا بیان درج کیا۔ ڈپٹی پولیس سپرنٹنڈنٹ کی رہنمائی میں پولیس ٹیم کوٹاین کے قریب ایک کونوینٹ نن کا بیان بھی درج کیا۔ بیشپ نے ان الزامات سے انکار کیا ہے انہوں نے کہا انہیں نن کے خلاف کارروائی کرنے کے سبب پھنسایا جارہا ہے۔ بیشپ کے مطابق یہ مسئلہ 2016 میں تب شروع ہوا جب انہوں نے نن کے خلاف ایک شکایت پرکارروائی کی تھی۔ سوال یہاں یہ بھی اٹھتا ہے کہ متاثرہ نن نے اب چار سال بعد الزام کیوں لگایا؟ وہ چار سال تک کیا کررہی تھی؟ کیونکہ یہ معاملہ کیتھولک چرچ کی عزت اور وقار سے وابستہ ہے پولیس کو اس کی پوری تہہ تک جانا ہوگا اور سچائی کو سامنے لانا ہوگا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں