جمہوریت میں دھرنا مظاہرہ کو روکا نہیں جاسکتا

سپریم کورٹ نے جنتر منتر اور بورڈ کلب علاقوں میں دھرنا، مظاہرہ اور ریلیوں کو این جی ٹی کے ذریعے لگائی گئی پابندی پیر کو ہٹا لی ہے اور کہا کہ ان علاقوں میں احتجاجی مظاہروں پر مکمل پابندی نہیں لگا جاسکتی۔ بڑی عدالت نے مرکزی سرکار سے کہا کہ وہ اس طرح کے پروگراموں کو منظوری دینے کے لئے دو مہینے کے اندر گائڈ لائنس تیار کرے۔ جسٹس اے کے سیکری اور جسٹس اشوک بھوشن کی بنچ نے کہا احتجاجی مظاہرہ کا حق اور شہریوں کو پرامن طریقے سے رہنے کا حق کے درمیان ٹکراؤ کے پیش نظر متوازن رویہ اپنانا ضروری ہے۔ قابل ذکر ہے کہ نیشنل گرین ٹربیونل پچھلی 5 اکتوبر کو جنتر منتر کے آس پاس کے علاقہ میں دھرنے مظاہروں پر روک لگادی تھی۔ اسے ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی بتاتے ہوئے این جی ٹی نے کہا تھا کہ شہریوں کو جنتر منتر روڈ ایریا پر آلودگی سے پاک ماحول میں رہنے کا حق ہے لیکن ریاستی سرکار اس کی حفاظت میں نا کام رہی ہے۔ دہلی کے وزیر اعلی سمیت کئی انجمنوں نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے۔ کیجریوال نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ دہلی کو پولیس راج میں بدلنے کی کوشش جمہوریت کے لئے خطرناک ہے۔ سووراج انڈیا نے بھی فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے۔ پرشانت بھوشن نے کہا جنترمنتر پر لگی یہ روک غیر جمہوری اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تھی۔ وہیں بھاجپا پردیش پردھان منوج تیواری نے کہا مرکزی سرکار کے قریب جنتا کا مظاہرہ اس کا حق ہے، روک ہٹانا کئی سماجی ،مذہبی و دیگر انجمنوں اور اداروں کے لئے خوشی دینے والا ہے۔ وہیں نئی دہلی آنے والے لوگوں کو اس سے کافی راحت ملے گی۔ دراصل انجمنوں اور اداروں کو دھرنا اور مظاہرہ کرنے کے لئے کوئی ادائیگی نہیں کرنی پڑے گی اور پارلیمنٹ اسٹیٹ کم بند ہونے سے لوگوں کو جام سے نجات ملے گی۔ این جی ٹی کی روک لگانے کے بعد تمام انجمنوں و اداروں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے سامنے بھی دقت آگئی تھی۔ اس کے لئے رام لیلا میدان طے کیا گیا تھا لیکن نارتھ ایم سی ڈی نے یہاں دھرنا مظاہرہ کرنے کے لئے مفت جگہ دینے سے منع کردیا۔ رام لیلا میدان کی ایک دن کی بکنگ فیس 50 ہزار روپے طے کردی تھی۔ سپریم کورٹ نے جنترمنتر اور بورڈ کلب دونوں ہی جگہ پوری پابندی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کچھ موقعوں پر پابندی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟