چوکیدار نہیں بھاگیدار ہیں پردھان منتری!راہل گاندھی

نہ تو مودی سرکار کو ہٹانے کی فکر تھی نہ ہی اپوزیشن کو جیتنے کی امید۔ اپوزیشن جانتی تھی نمبر اس کے خلاف ہیں اور 15 سال بعد کسی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی نا منظور ہوجائے گی اس لئے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن یہ جانتے ہوئے بھی کیوں لائی تحریک عدم اعتماد کا ریزولوشن؟ یہ ابن الوقتی سیاست کا چوسر تھا جس میں سب نے اپنی گوٹیاں بڑے سلیقے سے کھیلیں۔ اب کس کی گوٹی کتنی دور تک اثر کرے گی یہ تو 2019 و مختلف ریاستوں میں اسی سال ہونے والے اسمبلی چناؤ ہی بتائیں گے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے سنجیدہ انداز میں بحث کے آخر میں جواب دئے وہ ڈیڑھ گھنٹے تک اپوزیشن کے ذریعے اٹھائے گئے سوالوں کا جواب دیتے رہے اور طنز کرتے رہے لیکن بحث میں ماننا پڑے گا کہ راہل گاندھی چھا گئے۔ ان کی تقریر بھلے ہی تاریخی نہ رہی ہو لیکن اس کے اشارہ دور رس تھے۔ راہل نے بیحد ٹیلنٹ لیڈر کی طرح اشارہ کردیا کہ اب وہ سنجیدہ ہوگئے ہیں۔ راہل نے جس طرح پہلی بار پونجی واد کے خلاف رائے رکھی ، وہ قابل تعریف ہے، امبانی ۔اڈانی کا نام لیا، پہلے کانگریس پر سرمایہ داروں کی سرپرستی کے الزام لگتے تھے اس بار پارلیمنٹ میں راہل نے جو اشارہ دئے وہ صاف تھے یہ سرکار سرمایہ داروں کی حکومت ہے۔ پچھلے دو دہائی سے حکومتوں نے عام آدمی کے بجائے کارپوریٹ لابی کے لئے کام کیا۔ اگر راہل اس روایت پر ہلکی سی روک لگانے میں کامیاب ہوئے تو بم بم ہوجائے گا۔ راہل گاندھی نے مودی سرکار کے خلاف اپوزیشن کے تحریک عدم اعتماد پر بہترین تقریر کی۔ انہوں نے وہی بولا جو لوگ سننا چاہتے تھے۔ دیش کے تمام مسائل واقعات اور سرکار کی ناکامیوں پر مودی سرکار کو جوابدہ ٹھہرایا۔ مودی ۔ امت شاہ کی جوڑی کو بڑی ہوشیاری سے باقی بی جے پی سے الگ خانے میں ڈال دیا۔ سب سے اہم بات ان کی پوری تقریر کی یہ رہی کہ جیو کے بہانے مکیش امبانی اور رافیل ڈیل کے بہانے انل امبانی دونوں بھائیوں کو پارلیمنٹ میں نشانہ بنایا۔ پارلیمنٹ میں امبانی بھائیوں پر اتنا کھلا حملہ کسی سیاستداں نے پہلے نہیں کیا۔ ان دونوں تاجر بندھوؤں کو ان کی جگہ بھی دکھائی دی۔ مکیش امبانی اب یہ پروپگنڈہ نہیں کرپائیں گے کہ اس کی جیب میں بی جے پی اور دوسری جیب میں کانگریس ہے۔ راہل گاندھی نے پارلیمنٹ میں بتادیا کہ امبانی کی دونوں جیبوں میں کون ہے؟ پارلیمنٹ میں امبانی پر حملہ کرتے ہوئے راہل کی جانب سے اٹھائی گئی باتوں پر غور کرنا ضروری ہے۔ امبانی کا میڈیا کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ ہے اور میڈیا کا ایک حصہ پہلے سے ہی کانگریس اور پوری اپوزیشن کے خلاف پروپگنڈہ کرتا رہا ہے۔ اس کی سیاست کو فروغ دیتا رہا ہے۔ وہی دکھاتا ہے جو سرکار چاہتی ہے۔ انہوں نے بینکوں کو امبانی پر قرض اور ہزاروں کروڑ کی دینداری اور جہاز تک بہانے کا کوئی تجربہ ہونے کی بات بھی اٹھائی تھی۔ ان کا صاف اشارہ تھا کہ رافیل کا ٹھیکہ حال ہی میں ہندوستان ایروناٹیکل سے لیکر انل امبانی کی کمپنی کو دینا تھا جس نے آج تک ایک بھی جہاز نہیں بنایا۔ امبانی بھائیوں کے ساتھ ساتھ راہل نے مودی پر سیدھا الزام لگا یا کہ وہ 10-12 صنعت کاروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے کام کرتے ہیں۔ لگتا ہے کہ راہل نے طے کرلیا ہے کہ اس سنڈیکیٹ سے کیسے نمٹنا ہے۔ اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے۔ راہل گاندھی صرف کانگریس کے صدر نہیں ہیں بلکہ اپوزیشن پارٹی کے لیڈر بھی ہوں گے اور اگلے چناؤ میں ان کا رول آگے کیا ہونے والا ہے؟ اس لحاظ سے راہل گاندھی کی تقریر دیش کی سیاست میں دور رس اور ہوا بدلنے میں اہم رول نبھا سکتی ہے۔ اگر ہم راہل کے ذریعے اٹھائے گئے اشو کی بات کریں تو انہوں نے جنتا سے جڑے کئی اشو سلسلہ وار اٹھائے۔ نوٹ بندی نے چھوٹے و منجھولی صنعتوں کو تباہ کردیا ہے۔ بیرونی ملک سے کالا دھن واپس لاکر ہر شخص کے کھاتے میں 15 لاکھ روپے ڈالنے کا اشو بھی انہوں نے اٹھایا۔ جی ایس ٹی کے الگ الگ ٹیکس شرحوں میں بھی انہوں نے سرکار کو کٹہرے میں کھڑا کیا۔ کسانوں کی دور دشا اور مودی سرکار کی کسان پالیسی پر سوال اٹھائے۔ تین صنعت کاروں کے کروڑوں اربوں روپے معاف کرنے پر بھی راہل گاندھی نے مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ملک میں بدفعلی کی واقعات پر پی ایم مودی کی خاموشی پر بھی سوال اٹھایا۔ راہل نے بولا کہ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ میں چوکیدار ہوں دیش کا لیکن یہ پی ایم تو بھاگیدار نکلے۔ وزیر اعظم نے اپنی لچھیدار تقریر میں اور باتیں کہیں لیکن ان برننگ اشوز کا کوئی ٹھوس جواب نہیں دیا۔ حکمراں فریق کی طرف سے وزیر اعظم دوستی کا ہاؤ بھاؤ ضرور ظاہر کیا لیکن بھاجپا نے راہل گاندھی پرپارلیمنٹ میں غلط بیانی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے تحریک التوا کا نوٹس دے کر یہ جتا دیا کہ بھاجپا انہیں (کانگریس) کسی بھی شکل میں بڑھت دینے والی نہیں ہے۔ کانگریس نے جذباتی اشو اٹھانے کی جگہ اقتصادی اشوز پر زیادہ توجہ دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ سرکار اپنے وعدوں کو نبھانے میں ناکام رہی ہے اور دیش کی حالت بہتر بنانے کے بجائے بگڑتی جارہی ہے۔ انہوں نے یہ جملے والی سرکار کو بے نقاب کیا ہے۔ دونوں نے اپنی اپنی باتوں اور زبان میں بہت صاف بتا دیا ہے کہ 2019 کی بازی دلچسپ ہونے والی ہے۔ راہل نے اپنی حکمت عملی بھی دکھا دی ہے کہ وہ بھاجپا کی جارحیت کے بجائے اس کی سرگرم مخالفت اور محبت کی سیاست پر چناؤ لڑنے والے ہیں۔ اس حکمت عملی سے انہوں نے اپنی بہتر ساکھ بھی قائم کی ہے اور ان کی یہ بات دیش کے موجودہ نفرت کے ماحول میں ایک دوائی کی طرح ہے۔ فی الحال خوش ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس کی شروعات ایک مثبت توانائی کے ساتھ ہوئی ہے۔ امید ہے کہ آنے والے دن بھی مثبت اور بہتر ثابت ہوں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟