بین الاقوامی سرحد پر جنگ بندی سے معاملہ حل نہیں ہوگا

ایک بار پھر سرحد پر امن کے لئے اتفاق رائے بنانے کی کوشش جاری ہے۔ کوشش تو پاکستان سے بات کی بھی ہورہی ہے۔ ہماری سکیورٹی فورسز کو صرف بین الاقوامی سرحد پر جنگ بندی نہیں چاہئے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے بیشک سرحدپر سیز بائر سے تھوڑی راحت فوجیوں اور سرحد پر رہنے والے شہریوں کو بھی ملے گی لیکن یہ مسئلے کا پورا حل نہیں ہے۔ ہماری فوج اس وقت تین محاذوں پر ایک ساتھ لڑرہی ہے۔ بین الاقوامی سرحد پر ، جموں کشمیر کے اندر درانداز دہشت گردوں سے اور پتھر بازوں سے۔ جب تک ان تینوں محاذ پر پاکستان سے کوئی ٹھوس بات چیت نہیں ہوتی ہماری رائے میں مسئلہ کا کوئی پائیدار حل نہیں نکلے گا۔ بین الاقوامی سرحد پر گولی باری تو رک جائے گی لیکن ریاست کے اندر ان دہشت گردوں اور ان کے حمایتیوں کا کیا ہوگا؟ پاکستان پر کتنا بھروسہ کیا جاسکتا ہے یہ الگ اشو ہے۔ پاکستان آئے دن اپنی بات سے مکرتا رہتا ہے۔ پانچ دن پہلے ہی دونوں ملکوں کی ڈی جی ایم او (ڈائریکٹر جنرل فوجی آپریشن) سطح پر بات چیت میں 2003 کی جنگ بندی معاہدے کو پوری طرح نافذ کرنے پراتفاق رائے جتانے کے بعد پاکستانی رینجرس نے ایتوار کی رات بین الاقوامی سرحد سے لگی ہندوستانی چوکیوں اور گاؤں پر بھاری گولہ باری کی۔ اس میں بی ایس ایف کے دو جوان شہید ہوگئے۔ ایک خاتون سمیت 14 لوگ زخمی ہوگئے۔ بی ایس ایف نے بھی پاکستان کی گولہ باری کا سخت جواب دیا ہے۔ سرحد پر ہائی الرٹ ہے۔ دہشت کے مارے مقامی لوگ گھر بار چھوڑ کر محفوظ جگہوں پر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ دو دن کی گولہ باری کے بعد پیر کو بی ایس ایف اور پاکستانی رینجرس سرحد پر امن بنائے رکھنے پر ایک بارپھرراضی ہوئے ہیں۔ جموں میں ہوئی اس میٹنگ کے بعد بی ایس ایف کے ایک افسر نے بتایا کہ ہم نے صاف کردیا ہے کہ اگر گولہ باری ہوئی تو معقول جواب دیا جائے گا۔ وہیں پاکستانی فوج نے کہا کہ بھارت ۔ پاک کے درمیان جنگ کا کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ دونوں ہی ملک ایٹمی پاور ہیں۔ ایک طرف تو پاکستان امن کی بات کررہا ہے تو دوسری طرف اس کے ذریعے بھیجے گئے دہشت گرد اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہے ہیں۔ کشمیرکے شوپیاں میں دہشت گردوں نے بم پھینک کر چار جوانوں کو زخمی کردیا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ دہشت گردوں نے پام پورہ کے قریب شوپیاں تھانے کی پولیس گاڑی پر گولہ پھینکا، حملہ میں چار پولیس جوان دس شہری زخمی ہوگئے۔ پولیس وین پر کشمیری لڑکوں نے جم کر پتھر بازی کی۔ لاٹھیوں سے گاڑی پر حملے کئے، وہ تو شکر ہے پولیس جیپسی کادروازہ نہیں کھولا ورنہ گڑ بڑ ہوجاتی۔ یہ آئے دن کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر ہماری سکیورٹی فورس اور پولیس تینوں محاذوں پر اس وقت لڑ رہی ہے۔ جموں کشمیر میں رمضان کے مقدس ماہ میں ایک طرف جنگ بندی جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سیز فائر ہماری صرف سکیورٹی فورسز پر لاگو ہوتی ہے؟ کیونکہ نہ تو دہشت گرد حملے سے باز آرہے ہیں اور نہ ہی پتھر باز رکے ہیں؟ کل ملاکر ہماری رائے میں ایک طرفہ جنگ بندی یا بین الاقوامی سرحد پر گولہ باری بند کرنے پر اتفاق رائے کی کوشش کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ جموں و کشمیر میں تشدد رکے اور خوشگوار ماحول بنے، بین الاقوامی سرحد پر جنگ بندی پاکستان کو سوٹ کرتی ہے چونکہ یہاں پاک فوجی مرتے ہیں جبکہ جموں و کشمیر میں یا تو یہ آتنکی مرتے ہیں یا پھر پتھر باز لڑکے لیکن ہمیں تو یہ دیکھنا چاہئے جب تک تینوں محاذوں پر اتفاق رائے نہیں بنتا ایک طرفہ سیز فائر ہمیں راس نہیں آتا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟