شیلانگ میں تشدد:پہلے کبھی نہیں سنا تھا

میگھالیہ کی راجدھان شیلانگ پچھلے کچھ دنوں سے تشدد کے دور سے گزر رہی ہے۔ حالات اتنے خراب ہوگئے کہ فوج اور نیم فوجی فورس کا سہارا لینا پڑا۔ مرکز نے سی آر پی ایف کے ایک ہزارجوان بھیجے ہیں۔ اس سے ہی حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پریشان کرنے والی بات یہ ہے کہ کشیدگی ہمیں اس ریاست اور نارتھ ایسٹ کے اس شہر میں دیکھنے کو مل رہی ہے جو ابھی تک اپنے پرامن ماحول کی وجہ سے پورے دیش کے لئے ایک مثال تھا۔ ایک معمولی سا واقعہ اتنا بڑا اور تشدد کی شکل اختیارکرلے گا شاید ہی کسی نے سوچا ہوگا ۔ شیلانگ میں تشدد کی وجہ ایک پرانا جھگڑا ہے۔ کہا جارہا ہے ابتدا کھاسی فرقہ کے ایک لڑکے اور پنجاب عورت کے درمیان جھگڑے سے ہوئی تھی۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کھاسی فرقہ کا لڑکا سرکاری بس میں تھا جسے اس کا رشتہ دار چلا رہا تھا۔ اس لڑکے کے ساتھ میٹور علاقہ کے باشندوں نے مار پیٹ کی تھی، یہ جھگڑا علاقہ میں بس کھڑی کرنے کو لیکر شروع ہوا تھا۔ اسی درمیان یہ افواہ پھیلا دی گئی کھاسی فرقہ کے جس لڑکے کو مارا گیا اس کی موت ہوگئی۔ پھر کیا تھا لوگ بھڑک اٹھے۔ واردات کچھ بھی ہو جھگڑے کے پیچھے کی وجہ پرانا تنازعہ ہے۔ کھاسی فرقہ کے لوگ دوسری ریاستوں سے آئے لوگوں کو لیکر لمبے عرصہ سے ناراضگی ظاہرکرتے رہے ہیں لیکن اس طرح کے واقعات آئے دن کہ شورش کے بعد کبھی دب جاتے ہیں کبھی بڑھ جاتے ہیں لگتا تھا کہ معاملہ خاموش ہوگیا۔ لیکن سطح کے نیچے آگ جلتی رہی۔ شیلانگ میں جو نئی چیز ہورہی ہے وہ ہے کشیدگی کو بڑھانے اور بھڑکانے میں سوشل میڈیا کا رول۔ واٹس اپ پر طرح طرح کی افواہیں شروع ہوگئی ہیں جس نے کشیدگی کی آگ میں گھی کا کام کیا اور تشدد بھڑک اٹھا جو ابھی تک جاری ہے۔ کھاسی فرقہ کو عام طور پر امن پسند مانا جاتا ہے خاص طور پر شیلانگ کو دیش کے ایسے شہر کی شکل میں شمار کیا جاتا ہے جہاں عورتیں سب سے زیادہ محفوظ ہیں۔ یہاں رہنے والے دلت ،سکھ فرقہ کی آبادی بہت تھوڑی ہے۔ انہیں 160 سے بھی زیادہ سال پہلے صفائی کے کام کے لئے انگریزوں نے بلایا تھا۔ آہستہ آہستہ انہوں نے مقامی ریتی رواج اور رہن سہن کا طریقہ اپنالیا۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس میں دونوں فرقوں کے مفاد آپس میں ٹکراتے ہوں اس لئے دونوں فرقوں کے درمیان پہلے عدم اعتماد پیدا ہوگا تو پھر کشیدگی بڑھنا اور اس کے بعد تشدد کی خبریں پریشان کرنے والی ضرور ہیں۔ یہ سب کچھ ایسا ہے جس کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ حالانکہ سرکار نے صاف کیا ہے شیلانگ میں تشدد فرقہ وارانہ نہیں ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دوسری ریاستوں سے آئے لوگوں کے تئیں کھاسی فرقہ میں ناراضگی پائی جاتی ہے جو وقتاً فوقتاً تشدد کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ اسے صرف قانون و نظم کے چشمے سے دیکھنا صحیح نہیں ہے۔ حالات کا بنیادی سطح پر تجزیہ کرنا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟