آخر کیوں ہے اَن داتا سڑکوں پر

دیش کی چھ ریاستوں کے کسان جمعہ سے تحریک کے تحت سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ قرض معافی اور سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشیں لاگو کرنے سمیت 32 مانگوں کی حمایت میں راجستھان، پنجاب، ہریانہ، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور اترپردیش میں کسانوں نے سڑکوں پر دودھ بہایا اور سبزیاں پھینکیں۔ قومی کسان مزدور فیڈریشن کے چیئرمین شیو کمار شرما نے بتایا کہ آنولن کو ’’گاؤں بند‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسان بار بار کھیت چھوڑ کر سڑکوں پر کیوں آرہا ہے؟ سیدھا مطلب ہے ان کے مسائل کے حل کے تئیں انہیں مطمئن نہیں کیا جاسکا۔ کسان لگاتار مشکل میں گھرتا گیا ہے اور سامان کی مہنگائی کے دور میں کھیتی۔ کسانی پہلی جیسی نہیں رہی۔ کسانوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے 2004 میں مرکزی سرکار نے جانے مانے ماہر اقتصادیات ایم ایس سوامی ناتھن کی سربراہی میں نیشنل کمیشن آف فارمرس بنایا تھا اس نے 2006 میں کسانوں کی خوشحالی اور بہتر ترقی کے لئے کچھ سفارشیں دیں تھیں۔ یہ رپورٹ اقتدار کے کس گلیارے میں کھوگئی پتہ نہیں۔ تقریباً 50 سال پہلے دیش میں سبز انقلاب لانے والی مشہور زرعی سائنسداں سوامی ناتھن کی سربراہی میں 2004 میں اس وقت کی یوپی اے سرکار نے یہ کمیشن بنایا تھا۔ 2004 سے2006 (اکتوبر) کے درمیان میں رپورٹ پیش کی گئی اور بتایا گیا کہ کسانوں کی اقتصادی پریشانی کی وجہ کیا ہے اور ان کے ازالے کے اقدامات کیا ہونے چاہئیں۔ کمیشن نے اراضی بہتری کے ادھورے ایجنڈے، سنچائی کے لئے پانی کی کمی کی تکنیک کی کمی اوروقت پر ادارہ جاتی قرض بہتر اور مناسب قیمت دلانے والے بازار کی کمی اور موسم کی بے یقینی کو مسئلہ کی اہم وجہ بتایا۔ کسان بس یہی رپورٹ لاگو کرنے ،قرض معافی اور اپنی فصل کا مناسب دام مانگتے رہے ہیں۔ اس بار بھی یہی اشو ہے۔ ابھی کچھ وقت پہلے ہی کسانوں کی 68 انجمنوں نے دہلی کوچ کیا تھا۔ تب بھلے ہی سرحدیں بند کر انہیں وہیں پہنچنے سے روک دیا گیاہو لیکن کسان انجمنوں نے اسی وقت سے جوابی کوشش بتا کر جتادیا تھا کہ ان کی اصلی یوجنا تو اپنی اپنی ریاست میں تحریک کو رفتار دینے کی ہے جس کی آواز دور تک سنائی دے۔
کسان دیش کا ان داتا ہے، جب دیش کا ان داتا ہی پریشان ہو ، خودکشی کرنے پر مجبور ہو دیش میں خوشحالی کیسے آسکتی ہے۔ اس تحریک کے چار دنوں میں ہی تین خودکشیاں ہوچکی ہیں۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کوئی بھی سرکار کسانوں کے مسئلہ کو جڑ سے حل کرنے کے تئیں ایماندار نہیں۔ قرض معافی سے حل نہیں نکلتا کسان کو اس کی فصل کے مناسب دام ملنے چاہئیں۔ اسے اپنی کھیتی کرنے کے لئے درکار سہولیات ملنی چاہئیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟