جب سرحد پر جنازہ اٹھ رہے ہوں تو امن بات چیت کیسے ہوسکتی ہے

مودی سرکار کے چار سال پورے ہونے کے موقعہ پر وزیر خارجہ سشما سوراج نے صاف کردیا کہ جب تک سرحد پر لوگ مارے جاتے ہیں، جنازہ اٹھتے رہیں گے تب تک پاکستان کے ساتھ کسی طرح کی بات چیت نہیں ہوگی۔ انہوں نے صاف کہا جب تک دہشت گردی کو پڑوسی سے مدد ملتی رہے گی بات چیت ناممکن ہے۔ پاکستان کو یہ دو ٹوک سندیش دینا اس لئے بھی ضروری تھا کیونکہ پچھلے کچھ عرصہ سے پاکستان کی جانب سے یہ اشارہ دئے جارہے ہیں کہ وہ بھارت سے بات چیت کو تیار ہے کیونکہ یہ اشارہ خود پاکستانی فوج کے سربراہ کے حوالہ سے دیا گیا ہے اس لئے یہاں یہ تذکرہ کرنا اور بھی ضروری تھی کہ بھارت اس کو نظرانداز کرنے کو تیار نہیں۔ سرحد پر ہنگامے کے ساتھ جموں و کشمیر میں کسی طرح دہشت گردوں کی گھس پیٹھ کرائی جارہی ہے۔ آخر پاکستان یہ سوچ بھی کیسے سکتا ہے کہ اس کی طرف سے دہشت گردوں کی کھیپ بھیجنے کے بعد بھی بھارت اس سے بات چیت کے لئے تیار ہوجائے گا؟ دہشت گردی اور بات چیت دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ سشما سوراج کی اس دلیل کے حق میں یا تو بہت سارے واقعہ گنائے جاسکتے ہیں لیکن ان کے بیان کے ایک روز پہلے کشمیر میں ہوئے دو تین واقعات کو تازہ پس منظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ پلوامہ میں فوجی کیمپ پر ایتوا ر کی رات آتنکی حملہ ہوا جس میں فوج کے ایک جوان اور ایک شہری کی جان چلی گئی۔ پھر شوپیاں ضلع میں پیرکو آتنک وادیوں کے کئے گئے دھماکہ میں تین فوجی زخمی ہوگئے۔ ادھر اننت ناگ ضلع میں آتنک وادیوں نے ایک بینک سے 70 ہزار سے زیادہ کی رقم لوٹ لی اور گارڈ کی رائفل لیکر فرار ہوگئے۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ یہ واقعات ایسے وقت ہوئے ہیں جب رمضان کے پیش نظر مر کز نے ریاست میں فوجی کارروائی پر روک لگا رکھی ہے۔ یہی نہیں پچھلے دنوں فوج کے سربراہ نے کہا کہ اگر رمضان کے دوران امن قائم رہا تو فوجی کارروائی پر روک کی میعاد بڑھائی جاسکتی ہے۔ تازہ دہشت گردانہ واقعات سے ظاہر ہے کہ کون لوگ امن نہیں چاہتے۔ پچھلے تین چار برسو ں میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کے واقعات میں جیسی تیزی آرہی ہے اس کے پیش نظر دونوں دیشوں کے درمیان بات چیت ہونا مشکل ہوگیا ہے۔ روس کے اوفا شہر میں شنگھائی کو آپریٹیو آرگنائزیشن کی چوٹی کانفرنس کے دوران پتن کی پہل پر پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے وزیر اعظم مودی کی بات چیت ہوئی تھی۔ اس میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کے واقعات نہ ہونے دینے اور سرحد پر امن یقینی بنانے پررضامندی ہوئی تھی مگر کنٹرول لائن کے دونوں طرف اعلی فوجی افسروں کی میٹنگوں سے زیادہ کچھ نہیں ہو پایا۔ بین الاقوامی برادری بھی چاہتی ہے کہ دونوں دیشوں میں بات چیت ہو۔ سوال الگ نظریئے کا بھی ہے۔ کسی بھی صورت میں پاکستان سے بات چیت ہونی چاہئے یا نہیں ۔بات چیت تبھی پائیدار نتیجے پر پہنچ سکتی ہے جب اس کے لئے پہلے مناسب ماحول قائم کیا جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟