آبروریزی متاثرہ کی تصویر نہ دکھائیں

ہم دہلی ہائی کورٹ کی اس ہدایت سے پوری طرح اتفاق رکھتے ہیں کہ میڈیا میں چاہے وہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا ہو ہمیں آبروریزکی تصویریں نہیں دکھانی چاہئیں۔ آئے دن پرنٹ میڈیا میں متاثرین کی تصویریں چھپتی رہتی ہیں۔ ابھی کل ہی دہلی کے امن وہار علاقہ میں 11 ویں کلاس کی طالبہ سے بدفعلی کی تصویر شائع ہوئی ہے۔ تصویر میں اس کے بندھے پیروں پر مارنے کے نشان دکھائے گئے ہیں۔ اسی طرح کٹھوا کی بدقسمت بچلی آصفہ کی تصویر دکھائی جارہی ہے۔ ہمیں متاثرین کی جگہ ان جانوروں کی تصویر دکھانی چاہئے جنہوں نے یہ بدفعلی کی ہے۔ اس کے علاوہ بدفعلی کی پوری تفصیل دی جاتی ہیں کیا ان سب کی ضرورت ہے؟ دہلی ہائی کورٹ نے کٹھوا میں اجتماعی آبروریزی کے بعد ماری گئی 8 سالہ بچی کی پہچان ظاہر کرنے کے معاملے میں کئی میڈیا گھرانوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ آگے سے ان کی پہچان نہ ظاہر کی جائے۔ میڈیا میں آئی خبروں پر خود نوٹس لیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ یہ بات افسوسناک ہے اور بہت تکلیف دہ ہے کہ متاثرہ کی تصویر بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں آرہی ہے۔ نگراں چیف جسٹس گیتا متل اور جسٹس مورتی سی ہری شنکر نے میڈیا ہاؤسوں سے جواب مانگا ہے کہ اس معاملہ میں ان کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی جائے؟ بنچ نے کہا پورا کاپورا میڈیا ٹرائل چلا رہا ہے۔ عدالتنیمیڈیا ہاؤس کو ہدایت دی ہے کہ وہ آگے سے متاثرہ کا نام یا اس کی تصویر ، اسکول کا نام یا اس کی پہچان ظاہرکرنے والے کسی بھی اطلاع کو شائع کرنے یا ٹیلی کاسٹ کرنے سے بچیں۔ عدالت ہذا نے کہا کہ خبروں نے متاثرہ کی پرائیویسی کی توہین کی ہے اور خلاف ورزی کی ہے جس کی کسی بھی حالت میں اجازت نہیں دی جاسکتی۔ بنچ نے کہا کہ آئی پی سی اور پاسکو قانون میں ایسی سہولیات ہیں جو ایسی اطلاعات کے اشاعت یا ٹیلی کاسٹ کو ممنوع کرتی ہیں جو بچوں سمیت جنسی جرائم سے متاثرہ شخص کی ساکھ اور پرائیویسی متاثر کرتی ہیں۔ ہم ہائی کورٹ کی ہدایت کی حمایت کرتے ہیں۔ ہمیں متاثرہ کی تصویر یا ذاتی معلومات کو دینے سے بچنا ہوگا لیکن سوشل میڈیا کا کیا ہوگا؟ سوشل میڈیا میں تو سب کچھ آجاتا ہے ، اس پر کیسے کنٹرول ہوگا اس پر بھی تو غور کرنا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟