مہلا طاقت سے ہی برسا ہے سونا

ہندوستانی کھیل مسلسل نیا ٹیلنٹ اور خود اعتمادی حاصل کررہا ہے اور گولڈ کوسٹ میں ختم ہوئے کامن ویلتھ گیمس میں بھارت نے کمال کر دکھایا۔ ان کھیلوں میں بھارت 66 میڈل کے ساتھ تیسرے مقام پر رہا۔ نوجواں کھلاڑیوں اور عورتوں کی پرفارمینس بھی خاص طور پر بہت قابل ذکر رہی۔ ہندوستانی کھیل میں اعتمادی اور اسپورٹس اونچائی پر نئے ٹیلنٹس کا عروج ہورہا ہے۔ اس بات کو قومی کھیلوں میں بھارت کی خاتون کھلاڑیوں کے دمدار مظاہرے کے ساتھ ثابت ہوتا ہے کہ وہ گھریلو کھینچ تان اور جنسی نابرابری کی رکاوٹیں توڑ کر بھارت کا نام روشن کررہی ہیں۔ ان کھیلوں میں ٹیبل ٹینس مقابلہ میں سنگاپور جیسی مضبوط ٹیم کا ہارنا ویسے ہی ہے جیسا اولمپک میں چین کو شکست دینا۔نشانہ بازی میں 7 گولڈ سمیت 16 میڈل ، کشتی میں 5 گولڈ سمیت 12 میڈل اور ایک دوسرے کھیل میں 5 گولڈ سمیت 9 میڈل ، مکے بازی میں 3 گولڈ سمیت 9 میڈل، ٹیبل ٹینس میں 3 گولڈ سمیت 8 میڈل ، بیڈمنٹن میں 2 گولڈ سمیت 6 میڈل، ایتھلیٹکس میں 1 گولڈ سمیت 3 میڈل وغیرہ ہندوستانی کھلاڑیوں کے ٹیلنٹ صلاحیت کا ہی ثبوت ہے۔نشانہ بازی میں 15 سال کے انیرا مانوال نے نوجوان ٹیلنٹس کی دھماکہ دار موجودگی درج کرائی تو منیکابترا سب سے کامیاب ہندوستانی کھلاڑی کی شکل میں ابھر کر سامنے آئی ہیں جنہوں نے ٹیبل ٹینس میں مہلا سنگل اور ٹیم مقابلہ میں میڈل جیتا۔ مہلا یوتھ اور مین سنگل مقابلہ میں تانبہ کا میڈل جیت کر سبھی مقابلوں میں جیتنے کا نایاب ریکارڈ بنایا ہے۔ ایسے ہی میرا بائی یانو ، سنگیتا یانو، پونم یادو، حنا سدھو، تیجسونی ساونت، شریانی سنگھ، دنیش دھوگر وغیرہ نے ہندوستانی کھیلوں میں مہلا طاقت کی بالادستی کی نشاندہی کی ہے تو سشیل کمار ، میریکام اور سائنہ نہوال کے گولڈ میڈلوں نے دکھایا کہ ان کے تجربوں کا اب بھی کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ آسٹریلیا کے گولڈ کوسٹ میں اختتام پذیر کامن ویلتھ کھیل سالوں تک کھیل شائقین کا سینا فخرسے چوڑا کرتے رہے ہیں۔ زیادہ تر سونا بیٹیوں پر برسا ہے۔ یہ دیش کی آدھی آبادی کی مضبوطی اور دنیا کو ہندوستانی لڑکیوں کی ناقابل بیاں صلاحیت کو اجاگر کرتا ہے۔ حالانکہ لڑکیوں کی لمبی چھلانگ میں ان کی جدوجہد اور خاندان کا جذبہ زیادہ معنی رکھتا ہے جہاں کسی کھلاڑی کو بنیادی سہولیات کے بغیر پریکٹس کرنی پڑی تو بہتوں کے خاندان کو آدھے پیٹ یا بھوکے پیٹ رہ کر گزارہ کرنا پڑا۔ یہی زندگی ہے۔ بھارت کو آگے بڑھنے کی تلقین کرتی ہے۔ گولڈ کوسٹ میں 66 میڈل کے ساتھ بھارت تیسرے مقام پر رہا۔ 2002 ء میں گیمس میں 79 میڈل جیت کر بھی بھارت 4 مقام پرتھا۔ گیمس بھارت کے لئے تیسرے سب سے کامیاب کھیل رہے۔ پہلا دہلی (101)، دوسرا مین چیسٹر (79) ، تیسرا گولڈ کوسٹ (66)۔ یہ حقیقت ہر کسی کے نوٹس میں ہے کہ بھارت میں کھیل کی سہولیات کس سطح کی ہیں؟ نہ تو قاعدے کے ٹرینر ہیں اور نہ ہی اسپورٹس اسٹاف اور نہ ہی کھیلوں کے لئے بنیادی ڈھانچہ؟ پھربھی حالیہ برسوں میں کھیل کو لیکر سرکار اور کھیل شائقین دونوں کے نظریئے میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔ سرکار نے بھی بجٹ میں کھیل کی رقم بڑھائی ہے وہیں کھلاڑیوں میں بھی عمدہ کھیل دکھانے کا حوصلہ پروان چڑھا ہے۔ حالانکہ اب بھی ہم کمزوری کی حالت میں ہیں مگر اتنا صاف ہے کہ اگر اسی طرح سازو سامان اور سہولیت مہیا کرائی جائیں تو ہم کھیل کی دنیا میں بھی ایک بڑی طاقت بن سکتے ہیں۔ سبھی کھلاڑیوں اور ان کے کوچ ، اسپورٹس اسٹاف کو اس شاندار پرفارمینس کے لئے بہت بہت بدھائی۔ الوداع گولڈ کوسٹ۔ اب برمنگھم میں پھر ملیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟