بربریت کی ساری حدیں توڑتی واردات

جموں وکشمیر کے کٹھوا ضلع میں ایک 8 سال بچی کے ساتھ مبینہ اجتماعی آبروریزی اور پھر اس کا بے رحمانہ قتل کرنے کی شرمسار واردات نہ صرف حیرت زدہ کر دینے والی ہے بلکہ انتہائی دکھ سے کہنا پڑتا ہے نربھیا کے ساتھ ہوئی بربریت کے بعد عورتوں کی سلامتی کو لیکر جتائی گئی ساری تشویشات اور کوششیں بے معنی ثابت ہوئی ہیں۔ 10 جنوری کو جموں وکشمیر کے رسانا گاؤں سے بچی لاپتہ ہوگئی تھی۔ اس کے 7 دن بعد اس کی لاش برآمدہوئی تھی۔ 8 سالہ بچی کے ساتھ درندگی اور پھر قتل معاملہ میں جو چارج شیٹ داخل ہوئی ہے وہ بہت ہی شرمناک اور ہیجان پر مبنی ہے جس میں چونکانے والے خلاصے ہیں۔ اس سے بھی تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اس معاملہ کو پوری طرح سے فرقہ وارانہ اور سیاسی رنگ دے دیا گیا۔ حالانکہ پہلی نظر میں یہ معاملہ سیدھا سیدھا منظم جرائم کا ہے۔ سب سے چونکانے والی بات تو یہ ہے کہ اس پوری واردات کو انجام دینے میں پولیس نہ صرف جرائم پیشہ کے ساتھ ملی رہی بلکہ مجرمانہ کرتوت میں بھی سانجھے دار بنی۔ عدالت میں داخل چارج شیٹ میں بچی کے ساتھ ہوئی زیادتی کی جو تفصیل درج ہوئی وہ رونگٹے کھڑی کرنے والی ہے۔ اسے نہ صرف8 دن تک یرغمال بنائے رکھا بلکہ بیہوشی کی حالت میں اس کے ساتھ کئی لوگوں نے درندگی کی جن میں کچھ پولیس والے بھی شامل تھے۔ اس بچی کا صرف یہی قصور تھا کہ وہ اس بکروال فرقہ سے تعلق رکھتی تھی جسے وہاں سے مبینہ طور پر بے دخل کرنے کی سازش رچی جارہی ہے۔ واردات 10 جنوری اس سال کی ہے۔ جب اس بچی کو کچھ لوگوں نے اغوا کر ایک مندر میں چھپا لیا تھا اور مندر میں ہی اس کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کی گئی اس کے بعد قتل کردیا گیا۔ لاش کو جنگل میں پھینک دیا گیا۔اس کا سرپتھر سے کچل دیا گیا۔ یہ سب فورنسک جانچ میں ثابت ہوچکا ہے۔ چارج شیٹ میں پولیس نے کہا واردات کا اصلی سازشی مندر کا پجاری تھا جس نے اپنے بیٹے، بھتیجے، پولیس کے ایک ایس پی او اور اس کے دوستوں کے ساتھ ہفتے بھر اس گھناؤنی حرکت کو انجام دیا۔ اس کے علاوہ دو پولیس والوں نے پجاری سے واردات کے ثبوت مٹانے کے لئے 4 لاکھ روپے لئے۔ یہ تکلیف دہ ہے کہ اس واردات کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر جموں بنام کشمیر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔جس میں مقامی وکیل تک شامل ہیں جنہوں نے پہلے تو کرائم برانچ کو چارج شیٹ داخل کرنے سے روکنے کی کوشش کی تھی پھر ناکام رہنے کے بعد مقدمہ کر ڈالا۔ حد تو یہ ہے کہ ملزمان کا بچاؤ کرنے والوں میں ریاست کی محبوبہ سرکار نے بھاجپا کوٹے کے دو وزیرشامل ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ وہ اس واردات کی سی بی آئی جانچ تو چاہتے ہیں کیا ان منتریوں کو اپنی سرکار کے ماتحت کام کرنے والی پولیس پر بھروسہ نہیں رہا؟ واردات انجام دینے والے ڈوگرا فرقہ سے ہیں اور ہندو وای تنظیموں سے جڑے ہوئے ہیں۔ بکروال مسلم فرقہ کی درج فہرست ذات ہے یہ جانور پالتی ہے اور اس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہے۔ اس کانڈ کو لیکر جس طرح کے رد عمل آ رہے ہیں اس سے ریاست کی سیاست میں فرقہ واریت کو بڑھاوا ملے گا۔ ایسے میں وزیر اعلی کیسے ان حالات سے نمٹتی ہیں، متاثرہ فریق کو انصاف یقینی دلاپاتی ہیں یہ بڑی چنوتی ہے۔ انہوں نے وعدہ تو کیا ہے کہ متاثرہ خاندان کو انصاف ملے گا، دیکھیں کیا ہوتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!