اے ٹی ایم خالی: ایک بار پھر نوٹ بندی جیسے حالات

نوٹ بندی کے قریب سوا سال بعد ایک بار پھر نوٹ بندی کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔جب ایک بار پھر اے ٹی ایم میں ’نو کیش‘ کے بورڈ نظر آئے۔ دیش کی راجدھانی سمیت 10 ریاستوں میں اے ٹی ایم سے نقدی نہ ملنے کی خبریں آرہی ہیں۔ ان میں دہلی، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، بہار، جھارکھنڈ،آندھرا پردیش، تلنگانہ، کرناٹک، گجرات اور مہاراشٹر شامل ہیں۔ باقی ریاستوں میں یہ دقت سامنے آنے لگی ہے۔ نومبر 2016 کی تکلیفوں کو لوگ بڑی مشکل سے بھولنے لگے تھے لیکن اے ٹی ایم و بینک میں جو لمبی لائنیں لگی تھیں، عام لوگوں کو جو تکلیفیں ہوئی تھیں وہ سب پھر سے یاد آنے لگی ہیں۔ بیشک اے ٹی ایم کا سنکٹ ابھی بھی دور نہیں ہوا لیکن مانا جارہا ہے کہ کیش کے بحران سے افواہوں کا پھیلنا فطری ہے۔ دیش کے کئی حصوں میں اے ٹی ایم پوری طرح سے خالی پڑے ہوئے ہیں۔ جن میں کچھ پیسہ ہے بھی ان کے باہر لمبی لائنیں لگی دکھائی دیں۔ 2016 کے آخر میں جو ہوا اسے آسانی سے سمجھا جاسکتا تھا تب سرکار نے بازارسے زیادہ تر نقدی اٹھا لی تھیں اور اس سے کرنسی کا بحران کھرا ہوا جو کچھ ہفتوں تک چلا۔ جیسے ہی نوٹ چھپ کر بازار میں آئے تو بحران ختم ہوگیا۔ اب جو ہورہا ہے وہ لوگوں کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ وجہ پتہ نہیں چل پارہی ہے۔ سرکار اور ریزرو بینک کی طرف سے جو صفائی دی جارہی ہے وہ شاید ہی آسانی سے کسی کے گلے اترے۔ نومبر2016 میں جو ہوا وہ تو ایک پالیسی ساز فیصلہ کا نتیجہ تھا لیکن اپریل 2018 میں جو ہورہا ہے وہ لوگوں کے لئے پہیلی بنا ہوا ہے۔ سرکار اور ریزرو بینک کی جانب سے جو صفائی دی گئی اس کی اہمیت تبھی ہے جب اس بحران کوجلدی سے دور کردیا جائے۔ اگر ریزرو بینک اور سرکار اپنے وعدے پر کھری نہیں اتری تو یہ بحران اور گہرا ہوسکتا ہے اور دیش کے ان حصوں کو بھی اپنی زد میں لے سکتا ہے جہاں ابھی اتنا بحران نہیں ہے جتنا بہار ، مدھیہ پردیش وغیرہ اور دیش کے کچھ حصوں میں دکھائی دے رہا ہے۔ آر بی آئی صفائی دے رہا ہے کہ اس کے پاس درکار نقدی نہیں ہے۔ لاجسٹک اسباب سے کچھ ریاستوں میں اے ٹی ایم میں نقدی بھرنے اور کیلیبریشن کی کارروائی جاری رہنے سے دقت ہے۔ پھر بھی سبھی چار نوٹ پریسوں میں چھپائی تیز کردی گئی ہے۔ شبہ ہے کہ 2 ہزار کے نوٹوں کی جمع خوری ہورہی ہے اس سے نمٹنے کے لئے 500 کے نوٹوں کی چھپائی بڑھائی جائے گی۔ وزارت مالیات کا کہنا ہے تین مہینے کے دوران نقدی کی مانگ غیر متوقع طورپر بڑھی ہے۔ ارون جیٹلی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت معیشت میں درکار سے بھی زیادہ نقدی چل رہی ہے اوراس کی کمی نہیں ہے۔ کچھ علاقوں میں اچانک اور غیر ضروری طریقے سے مانگ ہوئی ہے۔ اضافے کے سبب تنگی بنی ہوئی ہے۔ کانگریس صدر راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ دیش پھر نوٹ بندی کے خوف کی گرفت میں ہے۔ مودی جی نے دیش کے بینکنگ سسٹم کو بربادک کردیا ہے۔ انہوں نے ہر ہندوستانی کی جیب سے 500-1000 کے نوٹ چھین لئے اور نیرو مودی کو دے دئے لیکن اس کے بارے میں نہ تو ایک لفظ بول رہے ہیں اور نہ ہی پارلیمنٹ میں آرہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ موجودہ بحران کسی بینکنگ بد انتظامی کا نتیجہ ہو۔ اگر ایسا ہے تو یہ اور بھی خطرناک بات ہے۔ ہمیں یہ سچائی تسلیم کرنی ہوگی کہ ہم کیش لیس معیشت کی باتیں بھلے کتنی ہی کریں لیکن تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ آج بھی چھوٹے دوکانداروں ،مزدوروں ،کسانوں کے لئے اور خاص کر غیر منظم سیکٹر کے لئے نقدی ہی سب کچھ ہے۔ اگر اس کا جلد حل نہیں نکالا گیا تو یہ اس چناوی ماحول میں حکمراں پارٹی کے خلاف جا سکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟