جاؤپہلے شاہجہاں کے دستخط لاؤ

سپریم کورٹ میں ایک عجب کیس کی سماعت ہوئی ہے۔ سنی وقف بورڈ نے تاج محل کی ملکیت کے حق کو لیکر سپریم کورٹ میں چیف جسٹس دیپک مشرا ، اے ۔ ایم خان ولکر اور ڈی ۔ وائی چندرچوڑ کی تین نفری بنچ نے وقف بورڈ کے وکیل سے کہا کہ اس دعوے کی حمایت میں دستاویز دکھائے کے بیگم ممتاج محل کی یاد میں 1631 میں تاج محل تعمیر کرانے والے شاہجہاں نے بورڈ کے حق میں وقف نامہ کردیا تھا۔ وقف نامہ ایک دستاویز ہے جس کے ذریعے سے کوئی شخص اپنی پراپرٹی یا زمین دھارمک کاموں یا وقف کے لئے عطیہ میں دینے کی منشا ظاہر کرتا ہے۔ بنچ نے کہا بھارت میں کون یقین کرے گا یہ (تاج محل) وقف بورڈ کا ہے۔ بنچ نے کہا اس طرح کے معاملوں کو لیکر بڑی عدالت کا وقت برباد نہیں کرنا چاہئے۔وقف بورڈ کے وکیل نے جب یہ کہا کہ شاہجہاں نے خود اسے وقف کی پراپرٹی اعلان کیا تھا تو بنچ نے بورڈ سے کہا کہ مغل بادشاہ کے ذریعے تصدیق شدہ یا تحریر شدہ وصیت دکھائی جائے۔ اس پر وقف بورڈ کے وکیل نے متعلقہ دستاویزات پیش کرنے کے لئے کچھ وقت دینے کی درخواست کی۔ عدالت عظمیٰ تاریخی یادگار تاج محل کو وقف پراپرٹی اعلان کرنے کے بورڈ کے فیصلہ کے خلاف ہندوستانی آثار قدیمہ کے ذریعے 2010 ء میں دائر اپیل کی سماعت کررہی تھی۔ بنچ نے سوال کیا شاہجہاں خود کیسے دستاویزات پر دستخط کرسکتا تھا۔ جانشینی کو لیکر ہوئی لڑائی میں اسے اس کے بیٹے اورنگزیب نے آگرہ کے قلعہ میں1658 میں قید کرلیا تھا۔ اس قلعہ میں ہی شاہجہاں کی 1666 میں موت ہوگئی تھی۔ اس معاملہ کی اگلی سماعت17 اپریل کو ہوگی۔ بتادیں جانشینی کی لڑائی کے چلتے شاہجہاں کے بیٹے اورنگزیب نے جولائی 1658 میں انہیں آگرہ کے قلعہ میں نظر بند کرلیا تھا۔ اپنی بیگم ممتاز محل کی یاد میں تاج محل بنوانے کے قریب 16 سال بعد 1666 میں شاہجہاں کا انتقال آگرہ کے قلعہ میں ہی ہوا تھا۔ عدالت نے کہا مغل دور کے خاتمہ ہونے کے ساتھ ہی تاج محل سمیت دیگر تاریخی عمارتیں انگریزوں کو منتقل ہوگئیں تھیں۔ آزادی کے بعد سے یہ یادگار حکومت ہند کے پاس ہے اور ای ایس آئی اس کی دیکھ بھال کررہی ہے۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ بھارت میں کون یقین کرے گا کہ تاج محل وقف بورڈ کا ہے؟ ایسے معاملوں پر سپریم کورٹ کا وقت برباد نہیں کرنا چاہئے۔ ای ایس آئی کی جانب سے پیش وکیل اے ڈی این راؤ نے کہا کہ وقف بورڈ نے جیسا دعوی کیا ہے ویسا کوئی وقف نامہ نہیں ہے۔ 1948 کے قانون کے تحت یہ عمارتیں اب حکومت ہند کے پاس آگئی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!