جنتا کے پیسوں کی لوٹ برداشت نہیں ہے

بینکوں میں گھوٹالوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ہیرا تاجر نیرو مودی ، گیتانجلی جیمس کے مالک میہول چوکسی سے متعلق گھوٹالہ معاملہ میں1300 کروڑ روپے کے مزید گھوٹالہ کا انکشاف ہوا ہے۔ اس کے بعد بینک کو لگی قرض کی رقم بڑھ کر 12600 کروڑ روپے ہوگئی ہے۔ ادھر بدھوار کو کولکتہ میں سی بی آئی نے کمپیوٹر کے مالک آر پی انفو سسٹم اور اس کے ڈائریکٹروں پر بینکوں کے ساتھ گٹھ جوڑکر کے مبینہ طور سے 515.15 کروڑ روپے کی دھوکہ دھڑی کا معاملہ درج کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پی این بی گھوٹالہ پر پہلی رائے زنی کرتے ہوئے جمعہ کو کہا تھا کہ جنتا کے پیسے کی لوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔ مالی دھاندلیاں کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مالیاتی اداروں کے انتظام اور نگرانی ایجنسیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ پوری ایمانداری سے اپنا کام کریں تاکہ اس طرح کے گھپلہ روکے جاسکیں۔ وزارت مالیات کا سبھی پبلک سیکٹر کے بینکوں کو 50 کروڑ روپے سے زیادہ رقم ڈکارنے والے کھاتوں کی فہرست بنا کر سی بی آئی کو سونپنے کی ہدایت کا مطلب ہے کہ سرکار نے بینکوں کے ڈوبے ہوئے یا ڈوبائے ہوئے قرض کی وصولی کے لئے آخر کار کمر کس لی ہے۔ حقیقت میں جسے بینکوں کی زبان میں ایم پی اے کہتے ہیں اس کی اعلان کردہ رقم10 لاکھ کروڑ سے زیادہ ہوچکی ہے۔ یہ اعدادو شمار وہ ہیں جو اب تک ہمارے سامنے آچکے ہیں۔ اگرچہ سارے ایسے کھاتوں کو ٹٹولا جائے تو نہ جانے یہ تعداد کتنی اوپر چلی جائے گی؟ بڑے گھپلوں سے پار پانے کے لئے سی بی آئی کے علاوہ انفورسمنٹ اور محصولاتی خفیہ ڈائریکٹوریٹ جیسی ایجنسی بھی سرگرم رول نبھائیں گی۔ جو طاقتور لوگ قرض لیکر چمپت ہوگئے ہیں ان سے وصولی کے لئے نیا قانون بنانے کی بھی تیاری ہے۔اس قانون میں اقتصادی جرائم کی جانچ کرنے والی ایجنسیوں کو اور مضبوط بنانے کی سہولت ہے۔ یہ قانون بننے کے بعد ایسے مفرور گھوٹالہ بازوں کے خلاف مقدموں کے لئے مخصوص عدالتیں بنائی جائیں گی تاکہ معاملوں کا جلد از جلد نپٹارہ ہوسکے۔ ویسے یہ کام آسان نہیں ہے اور 50 کروڑ سے زیادہ قرض لینے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہوگی۔ ان کے کھاتوں کی فہرست بنانے میں وقت لگے گا لیکن ایک بار فہرست تیار ہوگئی اور اس کے بعد کارروائی شروع ہوگئی تو پھر صحیح سمت میں گاڑی چل پڑے گی۔ جن قرض خوروں کی حالت دھن لوٹانے کی ہے اور ان کے نہ لوٹانے کے پیچھے واحد وجہ ہے ان کے ساتھ کسی بھی طرح کی رعایت نہیں ہونی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟