وجود بچانے کیلئے ببوا نے کی بوا کی حمایت
جب دشمن کی طاقت مسلسل بڑھ رہی ہو اور سوال خود کے وجود پر کھڑا ہوجائے تو دشمنوں کو آپسی تلخی بھلا کر قریب آنا ہی پڑتا ہے۔ ایسی ہی حالت سے لڑ رہی سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی دونوں کو احساس ہوگیا ہے ایک اور ایک گیارہ ہوکر وہ بھاجپا پر بھاری پڑ سکتے ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کے درمیان 22 سال سے سیاسی دشمنی چلی آرہی ہے۔ بتا دیں کہ اس سے پہلے 1993 میں سپا ۔بی ایس پی ایک ساتھ چناؤ لڑ چکے ہیں تب مقصد رام لہر کو روکنا تھا۔ تب ایس پی۔ بسپا کے اتحاد نے سرکار بنائی تھی اور بھاجپا نمبروں میں پچھڑ گئی تھی۔ گیسٹ ہاؤس کانڈ کے بعد اتحاد ٹوٹا تو دونوں پارٹیاں کبھی ساتھ نہیں آئیں۔ حالانکہ اکھلیش یادو کئی بار کھلے اسٹیج پر اتحاد کرنے کی تجویز دے چکے ہیں لیکن بہن جی نے انکار ہی کیا۔ غور طلب ہے کہ پچھلے اسمبلی چناؤ میں سپا کو 28فیصد اور بی ایس پی کو22 فیصد ووٹ ملے تھے۔ دونوں کے اتحاد کو جوڑ لیں تو یہ 50 فیصد ووٹ ہوجاتا ہے ایسی صورت میں بھاجپا کے لئے ضمنی چناؤ میں سپا کے امیدواروں کو ہرانا بیحد مشکل ہوجائے گا۔ گورکھپور اور پھولپور سیٹیں یوگی آدتیہ ناتھ اور کیشو پرساد موریہ کے استعفیٰ کے بعد خالی ہوئی ہیں۔ اس ٹیکنیکل گٹھ جوڑ کا سب سے پہلا اثر تو راجیہ سبھا چاؤ میں دکھائی پڑ سکتا ہے جس میں بھاجپا کو8 سیٹوں سے ہی اکتفا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سینٹرل چناؤ کمیشن نے یوپی سے خالی راجیہ سبھا کی 10 سیٹوں پرچناؤ کا پروگرام اعلان کردیا ہے۔
اسمبلی میں اپنی طاقت کی بنیاد پر بھاجپا8 سیٹیں آسانی سے جیت سکتی ہے۔ سپا۔ بسپا کو الگ الگ خیمہ میں رہنے کی صورت میں بھاجپا ایک اور سیٹ لینے کی کوشش کرسکتی ہے۔ ریاستی اسمبلی میں اکیلے بھاجپا کے 324 ممبر اسمبلی ہیں اس کے ایک ممبر اسمبلی لوکیندر سنگھ چوہان کی حال ہی میں ایک حادثہ میں موت ہوگئی تھی۔ بڑی اپوزیشن پارٹیوں میں سپا کے پاس 47 ، بسپا کے پاس19، کانگریس کے پاس7 ، آر ایل ڈی کے پاس 1 ممبر اسمبلی ہے اس طرح اگر یہ چاروں اپوزیشن پارٹیاں متحد ہوجائیں تو راجیہ سبھا کی سیٹ جیت سکتی ہیں۔ ادھر اترپردیش کی دو لوک سبھا سیٹوں گورکھپور اور پھولپور میں 11 مارچ کو ضمنی چناؤ ہونا ہے۔ ایسا بھی مانا جارہا ہے یہ چناؤ 2019 چناؤ کے لئے دونوں پارٹیوں کی ملی جلی سیاست کا حصہ ہے۔ حالانکہ مایاوتی نے یہ بھی کہا ہے اسے گٹھ بندھن نہ سمجھا جائے یہ تو صرف گورکھپور اور پھولپور لوک سبھا ضمنی چناؤ کے لئے ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں