فائرننگ میں دولہے کی موت
خوشی کے موقعہ پر ہوائی فائرننگ کا رواج کبھی کبھی خطرناک ثابت ہوجاتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ چاہے شادی کا موقعہ ہو یا سالگرہ کا، وجے جلوس ہو ، کچھ لوگ اپنی بندوقوں سے ہوائی فائرننگ کرکے خوشی مناتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا کرنا بہت خطرناک بھی ہوجاتا ہے۔ گذشتہ بدھوار کودہلی کے دلشاد گارڈن میں گھوڑ چھڑی رسم کے دوران بارات میں ایک رشتہ دار نے گولی چلادی۔وہ ہوا میں گولی چلا رہا تھا لیکن جب گھوڑے پر چڑھا دولہا زمین پر آگرا تب اسے احساس ہوا کہ اس کی گولی دولہے کو لگ گئی ہے، دولہا کی گھوڑے سے گرتے ہی موت ہوگئی۔ اس کو حادثہ کہیں یا اتفاقی واردات۔ سماج کے سامنے یہ سنگین سوال ضرور کھڑا ہوتا ہے کہ ہم خوشی اس طرح کیوں مناتے ہیں جو کسی کے لئے جان لیوا بن جائے؟ کیا بغیر گولی چلائے خوشی کا اظہار نہیں کیا جاسکتا؟ اس معاملہ میں مانڈ نائک ایک لڑکے کو پولیس نے حراست میں لیکر پوچھ تاچھ شروع کردی ہے۔ رشتہ داروں کے الزامات کے بعد پولیس نے لڑکے کو حراست میں لے لیا ہے۔ حالانکہ اصل ملزم عادل ابھی بھی فرار ہے۔ رشتہ داروں کا الزام ہے دولہا دیپک کمار کو گولی مارنے کے پیچھے مانڈو کا ہاتھ ہے۔ اس کے اشارے پر ہی عادل نے گولی ماری تھی۔ پولیس واردات والے دن کا ویڈیو دیکھ کر اس کی چھان بین کررہی ہے۔ معاملہ کی جانچ سے وابستہ ایک پولیس افسر نے بتایا رشتہ داروں کا الزام تھا مانڈو علاقہ کا دبنگ تھا اس کا دیپک کے خاندان سے جھگڑا چل رہا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا دیپک کی شادی فیرد آباد میں ہوئے۔ گھوڑ چڑھی کے دوران مانڈو نے بارات میں جانے کے لئے خاص کر جان بوجھ کر اپنے دوست بلائے تھے۔ رشتہ داروں کا الزام تھا کہ مانڈو کے اشارہ پر ہی عادل نے نشانہ بنا کر دیپک کو گولی ماری جس سے اس کی موت ہوگئی۔ دہلی، اترپردیش، مدھیہ پردیش سمیت شمالی ہندوستان کی کچھ ریاستوں میں اس طرح کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اعدادو شمار کو دیکھیں تو 2005 سے 2014 کے درمیان دیش بھر میں 15 ہزار سے زیادہ لوگ اس طرح کے واقعات کا شکار ہوئے تھے اور ان میں دوتہائی اموات اترپردیش میں ہوئیں تھیں۔ دراصل خوشی میں گولیاں چلانے کے واقعات ایسے سماج اور کلچرکی طرف اشارہ کرتے ہیں جس سے اپنی خوشی کو طاقت کا مظاہرہ کرنے اور رعب جمانے کی شکل میں دیکھا جاتا ہے۔ دیپک کے کیس میں تو لگتا ہے یہ غلطی نہیں طے شدہ حکمت عملی کے تحت قتل کیا گیا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں