امیروں اور غریبوں میں بڑھتی خلیج

بینکوں سے قرضہ لیکر بیرون ملک بھاگ جانا اور خود کو دیوالیہ اعلان کرنے والے بڑے گھرانوں کے مقابلہ دیش کے چھوٹے صنعتکاروں اور غریبوں کی کارکردگی بہتر رہی ہے۔ مرکزی وزیر دیہی ترقی سیکریٹری امرجیت سنگھ نے بینکوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی پرفارمینس کی بنیاد پر غریبوں کی مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ان پر داؤ لگائیں تو بہتر ہوگا۔ خود مالیاتی گروپ بنا کر اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی کوشش میں لگے غریب قرض چکانے کا زیادہ مادہ رکھتے ہیں۔ وزیر نے کہا کہ خواتین خود ہیلپ گروپ کا مظاہرہ شانداررہا ہے۔ انہیں غربت سے آزاد کرنے میں بینکوں کا رول اہم ہے۔ سنگھ نے کہا کہ نارتھ اور مشرقی ریاستوں میں خواتین خود ہیلپ گروپوں کو بینکوں کا پورا تعاون نہیں مل رہا ہے۔ ویسے پچھلی تین دہائیوں سے سرکاریں بدلتی رہی ہیں لیکن امیروں کی خوشحالی اور غریبوں کی بدحالی بڑھنے کا سلسلہ بند نہیں ہوا ہے۔ اس عام تصور پرآک فیم اینڈیا کی تازہ رپورٹ میں اعدادو شمار کی مہر لگادی ہے۔ ادارہ کی طرف سے حال ہی میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق اس دیش کے جی ڈی پی کے 15 فیصد کے برابر سرمایہ صرف ارب پتیوں کے بٹوے میں ہے۔ رپورٹ میں دیش کی اس اقتصادی بدحالی کیلئے ایک کے بعد ایک سرکاروں کی غیرمتوازن پالیسیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ آک فیم نے کہا کہ پچھلے تین دہائیوں میں دیش کے سب سے بڑے دھن کبیروں نے پشتینی اثاثہ اور اپنے ہی دیش میں چالبازیوں سے جمع کردہ رقم کے بلبوتے پر پیسہ کا انبار کھڑا کرلیا ہے۔ دوسری طرف سماج کے سب سے نچلے پائیدان پر کھڑے غریبوں کی بڑھتی غربت انہیں اور بھی نیچے لے گئی ہے۔ آک فیم انڈیا کی چیف ایگزیکٹو آفیسر نشا اگروال نے بتایا کہ سال 1991 میں اقتصادی اصلاحات کے جو طریقہ اپنائے گئے، امیروں اور غریبوں کے درمیان بڑھی خلیج انہی طریقوں کا نتیجہ ہے۔ نئے اعدادو شمار کے مطابق ارب پتیوں کے پاس کل سرمایہ جی ڈی پی کے 15 فیصد تک پہنچ گیا ہے جو محض پانچ برس پہلے تک 10 فیصدی تھا۔ دی وائڈننگ گیپس : انڈیا ان اکوالٹی رپورٹ2018 میں آکس فیم انڈیا نے بتایا کہ سال2017 کے اعدادو شمار کے مطابق دیش میں 101 ارب پتی (کل اثاثہ 1 ارب ڈالر سے زیادہ یعنی 6500 کروڑ روپے اور اس سے زیادہ) ہے۔ رپورٹ کا دعوی ہے کہ آمدنی اور کھپت اور اثاثہ جیسے سبھی پیمانوں پر بھارت دنیا کے سب سے زیادہ اقتصادی کمزوری والے دیشوں کی قطار میں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟