تریپورہ کی ہار لیفٹ کے تابوت میں کیل
تریپورہ کی ہارکے بعد لیفٹ پارٹیوں کے لئے اپنے سیاسی وجود کو بچانے کو لیکربحران کھڑا ہوگیا ہے۔ ان کے لئے یہ ہار تابوت میں آخری کیل ثابت ہوسکتی ہے۔ مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری جنرل سیتا رام یچوری نے بنگال چناؤ کی طرز پر تریپورہ میں بھی کانگریس کے ساتھ مل کر چناوی سمر میں اترنے کی تجویز رکھی تھی لیکن پارٹی کے پولٹ بیورو نے تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ مغربی بنگال چناؤ کی حالت ہوجائے گی جہاں پارٹی کی حیثیت تیسرے و چوتھے نمبر پر ہوگئی ہے۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس نے لیفٹ پارٹیوں کی طرز پر ہی کراری مات دی تھی۔ لیفٹ فرنٹ کی اتحادی پارٹیو ں کو ریاست کے پنچایت و شہری کارپوریشنوں کے چناؤ میں تیسرے و چوتھے مقام پر تشفی کرنی پڑی تھی۔ تریپورہ کی 20 سال کمان سنبھالنے والے منک سرکار کو لگتا ہے کہ پرانی بنی کامیابیوں پر ہار کے اشو بھاری پڑے۔ انتہا پسندی کی آگ سے جھلس رہی ریاست میں امن بحال کرنا ان کی بڑی کامیابی تھی لیکن اس کے ساتھ لوگوں کی توقعات بھی بڑھ رہی تھیں جسے پورا کرنے میں سرکار کامیاب نہیں رہی۔ سرکاری ملازم ناراض تھے کیونکہ ابھی تک فورتھ پے کمیشن کے تحت تنخواہ نہیں مل پا رہی ہے جبکہ بھاجپا نے انہیں ساتواں پے کمیشن دینے کا وعدہ کیا ہے۔ نئے طلبا میں روٹی روزی کو لیکر مایوسی تھی۔ بھاجپا لوگوں کو یہ سمجھانے میں کامیاب رہی ہے کہ ہم ریاست میں ترقی لیکر آئیں گے۔ بھلے ہی منک دادا کی ساکھ بے داغ رہی ہو لیکن بھاجپا لوگوں کو یہ سمجھانے میں بھی کامیاب رہی ہے کہ ان کی سرکار کے وزرا نے کرپشن کو بڑھاوا دیا ہے اور پچھڑی جاتیوں کے لوگوں کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ راجدھانی اگرتلا اور دوسرے شہروں میں لوگ کہتے تھے منک سرکار اچھے آدمی ہیں لیکن اب تبدیلی کا وقت آگیا ہے۔ لیفٹ پارٹیوں نے اپنی آئیڈیالوجی کے فروغ اور پھیلاؤ کے لئے ہندی اکثریتی علاقوں میں جانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن ان کی یہ اسکیم دھری کی دھری رہ گئی۔ لیفٹ مورچہ کچھ ریاستوں تک ہی محدود رہا۔ جن دوسری ریاستوں میں سرگرم بھی تھا ایک ایک کرکے وہاں سیاسی زمین کھسکتی رہی لیکن لیفٹ پارٹیوں نے ان کی کوئی خبر نہیں لی لہٰذا لوگوں کو فکر ستاتی چلی گئی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بنگال کے بعد اب تریپورہ میں بھی پارٹی کو کراری ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ منک سرکار کو دیش کی لیفٹ پارٹیوں کی تاریخ میں سیا سی وجود کے نابود ہونے کے طور پریاد کیا جائے گا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں