کانگریس میں بڑھتا عدم اعتمادی کا بحران

کچھ دن ہوئے جب راجستھان اور مدھیہ پردیش کے ضمنی انتخابات میں ملی کامیابی کو دیش کی سب سے پرانی جماعت کانگریس کے پنرجنم کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ پارٹی کے نئے مقرر صدر راہل گاندھی کو اس جیت کا سہرہ دینے والوں کی کمی نہیں تھی۔ لیکن دیش کے تین نارتھ ایسٹ اسٹیٹ کے نتائج نے سنیچر وار کو پارٹی کے سارے جوش پر پانی پھیر دیا۔ کبھی پورے نارتھ ایسٹ کو کانگریس کا گڑھ مانا جاتا تھا جہاں کی عوام صرف گاندھی خاندان کا نام دیکھ کر ہی ووٹ ڈالا کرتی تھی۔ اب پارٹی صرف دو ریاستوں منی پور۔ میگھالیہ میں سمٹ کر رہ گئی تھی اب وہ وہاں حکمراں نہ ہوکر سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے۔ نارتھ ایسٹ کا اسکاٹ لینڈ کہلانے والے میگھالیہ میں بھاجپا نے ایتوار کو محض تین گھنٹے میں بازی پلٹتے ہوئے کانگریس کے ہاتھ سے اقتدار چھین لیا۔دس سال سے سرکار چلا رہی کانگریس 21 سیٹیں جیت کر بڑی پارٹی کے طور پر تو ابھری ہے مگر اقتدار سے باہر ہوگئی ہے۔ نتائج کے بعد بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آنے کے بعد کانگریس نے رات میں ہی گورنر سے ملاقات کر سرکار بنانے کا دعوی پیش کیا تھا۔ اس درمیان بھاجپا کے کئی سرکردہ لیڈر بھی رات میں شیلانگ پہنچ گئے اور ایتوار کی صبح سے ہی میٹنگوں کا جو سلسلہ شروع ہوا اس کے تین گھنٹے کے اندر ہی تمام علاقائی پارٹیوں نے کونراڈسنگما کے نام پر اپنی رضامندی جتادی۔ ایتوار کی شام کو سنگما نے ریاست کے گورنر کے سامنے اپنے حمایتی 34 ممبران اسمبلی کی پریڈ کرادی۔ اس کے بعد گورنر گنگا پرساد نے ان کو سرکار بنانے کی دعوت دے دی۔ کل ملا کر تین گھنٹوں میں ہی 34 ممبران اسمبلی کی حمایت پاکر بھاجپا نے بازی پلٹ دی۔ کانگریس کے ہاتھوں سے بازی نکلتے دیکھ کر پارٹی کے تین سینئر لیڈر احمد پٹیل، کملناتھ اور مکل واسنک دوپہر کو ہی شیلانگ سے نکل گئے۔ نارتھ ایسٹ کے تین صوبوں میں کانگریس کی ہار پر واویلا کھڑا ہوگیا ہے۔ زیادہ تر لیڈر کانگریس کے سیکٹریٹری جنرل اور نارتھ ایسٹ کے کانگریسی انچارج ،راجستھان کے سینئرلیڈر سی پی جوشی کو ہار کے لئے ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ دیش کی سب سے پرانی پارٹی کانگریس کا دائرہ سمٹتا جارہا ہے۔ چار سال پہلے تک دیش کے آدھے راجیوں پر راج کرنے والی پارٹی اب محض تین ریاستوں اور ایک مرکزی زیر انتظام ریاست میں سرکار باقی ہے۔ کرناٹک میں کچھ ماہ بعد اور میزورم میں اس سال کے آخر میں چناؤ ہونے ہیں۔ کانگریس نے میگھالیہ سے سبق لیتے ہوئے قدم نہیں اٹھائے تو ان کے پاس صرف پنجاب اور پونڈوچیری ہی بچے گی۔ پچھلے لوک سبھا چناؤ میں ہار کے بعد پارٹی کو ایک دو ریاست چھوڑ کر اسمبلی چناؤ میں ہار ملی ہے۔ گجرات چناؤ میں پارٹی کی کارکردگی سے ورکروں کا حوصلہ بڑھا تھا لیکن نارتھ ایسٹ میں ہارنے انہیں پھر مایوس کردیا ہے۔ جمہوریت تبھی پوری طرح سے کامیاب ہوتی ہے جب حکمراں فریق کے سامنے مضبوط اپوزیشن ہو اور یہ صرف کانگریس ہی کرسکتی ہے۔ کانگریس کو جنرل اجلاس میں حکمت عملی پر نظرثانی کرنی ہوگی تاکہ کرناٹک اور میزورم میں سرکار برقراررکھتے ہوئے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان بھاجپا سے چھین سکے۔ کانگریس کو ایک طرح سے اپنا وجود بچانے کی لڑائی لڑنی ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟