سائی بابا نے توڑیں دھرموں کے بیچ کی دیواریں

مورخوں کے مانیں تو سائی خود کون تھے، کس دھرم میں پیدا ہوئے تھے اس کی کوئی ٹھوس جانکاری نہیں ملتی ہے۔ سائی بابا پر لکھے گئے کچھ پرانے گرنتھوں کی بنیاد پر مانا جاتا ہے کہ شرڈی کے سائی بابا کا جنم 1838 سے1842 تک کے درمیان ہوا تھا۔ایک فقیر کی زندگی جیا کرتے تھے سائی۔ سائی نام انہیں تب ملا جب وہ کم عمر میں شرڈی آگئے تھے۔ شرڈی میں ہی وہ ایک پرانی مسجد میں رہنے لگے تھے۔ مسجد میں رہنے کی وجہ سے بہت سے لوگ انہیں مسلمان مانتے تھے لیکن خود سائی نے اس مسجد کو دوارکا سائی نام دیا تھا اس وجہ سے بہت سے لوگ انہیں ہندو دھرم کا مانتے تھے۔ ظاہر ہے کہ سائی نے کبھی خود کو کسی ایک مذہب سے نہیں باندھا۔ سائی کے بھکتوں میں کون کس مذہب کا ہے یہ کوئی نہیں جانتا لیکن سائی بابا کو ماننے والے ہر دھرم کے ہیں۔ یہ بھکت اپنی اپنی عقیدتوں کے مطابق سائی کی بھکتی کرتے ہیں۔ سائی بابا کے بھکتوں میں شرڈی کے مندر کے درشن کی خاص وجہ بھی ہے۔ سائی 18 سال کی عمر میں شرڈی آگئے تھے اور 15 اکتوبر 1918 کو چرسمادھی میں لین ہونے تک وہیں رہے۔ ان کے دہ تیاگنے کے محض چار سال بعد 1922 میں اس پوتر مندر کو سائی کی سمادھی کے اوپر بنایا گیا۔ بھکتوں کا مقصد صرف ایک تھا کہ مندر کے ذریعے سائی کے اپدیشوں اور ان کی تعلیمات کو بہتر طریقے سے پھیلایا اور فروغ دیا جائے۔ آج دنیا بھر سے جو لوگ اس مندر میں درشن کے لئے پہنچتے ہیں تازہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ سالانہ2 کروڑ سے زیادہ بھکت شرڈی کے سائی مندر میں آتے ہیں۔ ان بھکتوں کے چڑھاوے کی وجہ سے ہی سائی دھام کی گنتی دیش کے کچھ سب سے امیر مندروں میں ہوتی ہے۔ ان کے مندر اب شرڈی میں نہیں بلکہ دیش کے ہر کونے ہر گلی میں مل جائیں گے۔ سائی کے بھکت ان کے چمتکاروں کی کہانیاں سناتے ہیں۔ کوئی سائی کو دیکھنے کا دعوی کرتا ہے تو کوئی سائی کی شرن میں آنے کے بعد اپنی زندگی میں آئے مثبت پہلوؤں کی داستاں سناتا ہے۔ سائی کا کہنا ہے سب کا مالک ایک بے شک سائی جیسے یوگی ایشور سے قریب ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بھکت انہیں ایشور کی طرح پوجتے ہیں۔سائیں کے بھکت سچے من سے سائی کی شرن میں آتے ہیں اور اپنی زندگی میں بہتری محسوس کرتے ہیں۔ ان کے لئے ہر مسئلہ کا حل سائی کے پاس ہے۔ دیش بھر میں سائی بابا کے مندروں کی بڑھتی تعداد بھکتوں کے بڑھتے بھروسہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟