چندرابابونائیڈوو نریندر مودی کی دوستی ٹوٹی

تیلگودیشم پارٹی اور بھاجپا کے رشتے ان دنوں خراب چل رہے ہیں۔ ایک وقت تھا جب نریندر مودی اور چندرا بابو نائیڈو ایک ساتھ ہاتھ ملاتے اور مسکراتے ہوئے تصویریں دکھائی پڑتی تھیں لیکن اب وہ پرانی بات ہوگئی ہے۔ ٹی ڈی پی نیتا چندرابابو نائیڈو کے ذریعے مرکز سے اپنے دو وزیر ہٹانے کے بعد بھاجپا کے وزرا نے آندھرا کوٹے سے کیبنٹ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ دونوں میں دراڑ کی وجہ ہے ریاست کو اسپیشل درجہ۔ ٹی ڈی پی طویل عرصہ سے آندھرا پردیش کے لئے اس درجہ کی مانگ کررہی ہے اور مرکزی سرکار کی طرف سے اب یہ تقریباً صاف ہوگیا ہے کہ آندھرا کو یہ خصوصی درجہ نہیں ملے گا۔ بھاجپا کا کہنا ہے کہ وہ آندھرا پردیش کی ترقی کے لئے عہد بندہ ے اور ریاستی حکومت کی ہر ممکن مدد کی جائے گی لیکن بے جواز مانگوں کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے پہلے چندرابابو نائیڈو نے اسمبلی میں کہا تھا کہ کانگریس کا وعدہ ہے کہ وہ اگر 2019 میں اقتدار میں آتی ہے تو آندھرا پردیش کو خصوصی درجہ دے گی، پھر بھاجپا سرکار ایسا کیوں نہیں کررہی ہے؟نائیڈو کی شکایت ہے کہ بھاجپا لیڈر شپ میں ریاست کو خصوصی درجہ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن پھر ان کا کہنا تھا کہ سبھی ریاستوں میں یہ درجہ واپس لے لیا جائے گا۔ ان کا دعوی ہے کہ یہ بات کہے جانے کے بعد ہی وہ اسپیشل پیکیج پر راضی ہوئے تھے کیونکہ ابھی خصوصی درجہ وجود میں ہے ایسے میں آندھرا پردیش کو یہ فوراً ملنا چاہئے۔ بھاجپا کا کہنا ہے پسماندہ ہونے کی دلیل پر آندھرا پردیش کو یہ درجہ نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس حساب سے بہار کو یہ درجہ ملنا چاہئے۔ پی ایم مودی نے بہار اسمبلی چناؤ کے دوران بھی خصوصی درجہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ پیسہ کو لیکر مرکز اور آندھرا کے درمیان کافی اختلافات ہیں۔ آندھرا کا کہنا ہے کہ اس کا محصول خسارہ 16 ہزار کروڑ ہے جبکہ مرکز کا کہنا ہے اصل محصول خسارہ 4 ہزار کروڑ کا ہے اور 138 کروڑ روپے دئے جانے باقی ہیں۔ ریاست اسپیشل اسٹیٹس مانگ رہا ہے تو مرکز کا کہنا ہے کہ اسے ختم کردیا گیا ہے اور مرکز کی طرف سے اسپانسر سبھی اسکیموں کے لئے 90.10 کروڑ کی فنڈنگ کی پیشکش ہے۔ اس کے علاوہ آندھرا پولورم کیلئے 33 ہزار کروڑ روپے ،راجدھانی امراوتی کے لئے 33 ہزار کروڑ روپے مانگ رہا ہے جبکہ مرکز نے پولورم کے لئے 5 ہزار کروڑ دئے ہیں،امراوتی کے لئے 25 ہزار کروڑ روپے دے چکا ہے۔ بتا دیں کہ شروعات میں صرف تین ریاستوں آسام، ناگالینڈ، جموں و کشمیر وغیرہ ریاستوں کو خصوصی درجہ دیا گیا تھا لیکن بعد میں اروناچل پردیش، ہماچل پردیش، منی پور، میگھالیہ، میزورم، سکم، تریپورہ، اتراکھنڈ جیسی 8 ریاستوں کو اسپیشل درجہ دیا گیا تھا۔ ٹی ڈی پی اب اسے آندھرا کے لوگوں کی عزت اور حقوق کا اشو بنانے کی کوشش میں لگتی ہے۔ اس سے نائیڈو کو ریاست کی عوام کے درمیان اہم اشو اور حمایت ملنے کی امید بتائی جارہی ہے۔ وہیں بی جے پی متبادل انتظام کے لئے وائی ایس آر کانگریس کے رابطہ میں بتائی جارہی ہے۔ ٹی ڈی پی اگر اب این ڈی اے سے الگ ہونے کا اعلان کرتی ہے تو بھاجپا جگنموہن ریڈی کی وائی ایس آر کانگریس سے ہاتھ ملا سکتی ہے۔ واقف کاروں کا ماننا ہے آنے والے لوک سبھا چناؤ کے لحاظ سے ٹی ڈی پی اور بی جے پی کا الگ ہونا ایک اہم موڑ ہوسکتا ہے۔ ریاست میں لوک سبھا کی 25 سیٹیں ہیں۔ پچھلے چناؤ میں ٹی ڈی پی اور بی جے پی نے 17 سیٹیں جیتی تھیں۔ وائی ایس آر کانگریس کو 8 سیٹیں ملی تھیں۔ حالانکہ ٹی ڈی پی این ڈی اے سے بھی الگ ہوجاتی ہے تو کیا بی جے پی وائی ایس آر کانگریس سے ہاتھ ملا کر پچھلی مرتبہ جیتی سیٹیں پھر سے حاصل کر پائے گی؟ یہ اہم سوال رہے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟