بہوجن سماج پارٹی کی چھوٹی سی جیت کے بڑے سیاسی اشارے

2012 و2017 کے اسمبلی چناؤ اور2014 کے لوک سبھا چناؤ میں بہوجن سماج پارٹی کا اترپردیش میں صفایا ہوگیا تھا۔ بسپا نے اسے منظم سازش قرار دیا تھا۔ای وی ایم میں دھاندلی کا الزام بھی لگایا تھا۔ ای وی ایم کے خلاف پردیش میں احتجاجی دوس تک منایاگیا۔ حالیہ اترپردیش کے بلدیاتی چناؤ میں بھی ای وی ایم سے ووٹنگ کی مخالفت کی لیکن جس ای وی ایم پر بسپا نے سوال اٹھایا تھا جمعہ کو اسی ای وی ایم کے ذریعے علیگڑھ اور میرٹھ میونسپل کارپوریشن کی اسے سیٹ ملی۔ ای وی ایم کے فیصلے سے ہی میرٹھ میں بسپا امیدوار سنیتا ورما میئر بنیں اسی طرح علیگڑھ میونسپل کارپوریشن کی سیٹ پربسپا کے محمد فرقان کو جیت حاصل ہوئی۔ بسپا کی اس چھوٹی سی جیت کے بڑے سیاسی اشارہ ہیں۔ شہروں میں ملی کامیابی بسپا میں روح پھونکنے والی ہے۔ بلدیاتی چناؤ کا نتیجہ بسپا کے لئے اچھے دن کا احساس کرانے والا ثابت ہوا۔ برسوں بعد چناؤ نشان پربلدیاتی چناؤ لڑی بسپا کو بھلے ہی بڑی کامیابی نہ ملی ہو لیکن اس کے لئے یہ فائدہ مند ضرور رہا۔ مشرقی یوپی سے مغربی یوپی سے اسے فائدہ ملا۔ صحیح معنوں میں اس کے لئے یہ جیت سنجیونی کا کام کرے گی۔ بسپا نے اسمبلی اور لوک سبھا چناؤ میں مسلسل مایوس کن کارکردگی کے بعد زور دار واپسی کی ہے۔ پارٹی نے علیگڑھ کیساتھ میرٹھ کے میئر کی کرسی پر قبضہ کرنے کے ساتھ کونسلروں کی 147 سیٹوں پر قبضہ جمایا ہے اس سے صاف ہوگیا ہے کیڈر ابھی بھی بہن جی کے ساتھ ہے۔ سپا کی پروان چڑھتی امیدوں کو ان نتیجوں نے جھٹکا دیا ہے۔ پارٹی کا نوجوانوں میں اپنی مقبولیت کا بھروسہ تھا تو مسلمانوں کی ڈور بھی خود سے بندھی ہونے کی وجہ سے بھرپور اعتماد تھا۔ سلاٹر ہاؤس ، لو جہاد، تاج محل، اینٹی رومیو اسکوائڈ جیسے اشوز سے ہوئے ووٹوں کے پولارائزیشن کا فائدہ بھاجپا کو ہوا ہے۔ اس کے برعکس فائدہ سپا کے بجائے بسپا کو زیادہ ہوا۔ لگتا ہے کہ دونوں ہی ووٹ بینک سپا کے بجائے بھاجپا، بسپا و دیگر پارٹیوں کی طرف کھسک گئے۔ شہری علاقہ کے لئے ان چناؤ میں نئے ذات پاتی تجزیئے کے بھی اشارہ ملے ہیں۔ لوک سبھا سے لیکر اسمبلی چناؤ میں رہنے والا ذات پات کا تجزیہ بدلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اس چناؤ میں ملی کامیابی سے خوش بہوجن سماج وادی پارٹی چیف مایاوتی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اگروہ جمہوریت میں یقین رکھتی ہے تو 2019 کے عام چناؤ ای وی ایم کے بدلے بیلٹ پیپر سے کروائے۔ انہوں نے کہا کہ اگلا لوک سبھا چناؤ 2019ء میں ہے اور اگر بھاجپا کہتی ہے کہ ان کے ساتھ عوام ہے اور پورے دیش کی جنتا اس کے ساتھ ہے تو وہ بیلٹ پیپر سے چناؤ کروا کر دکھائے۔ میں یقین کے ساتھ کہتی ہوں بھاجپا کبھی نہیں جیت پائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟