آپ کا پوشیدہ ڈاٹا بینک میں کتنا محفوظ ہے

جس پوشیدہ ڈاٹا کو آپ بینک میں محفوظ مان رہے ہیں وہ بینک حکام کی لاپروائی سے پبلک ہورہا ہے۔ اس معاملہ میں نوئیڈا کے باشندہ ہندوستانی بحریہ سے ریٹائرڈ کماڈور لوکیش بترہ نے 28 نومبر کو آر بی آئی کے گورنر ارجیت پٹیل کو خط لکھ کر نوئیڈا کے حیدر آباد اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی لاپروائی کی شکایت کی ہے۔ لوکیش بترہ نے ای میل کے ذریعے گورنر ارجیت پٹیل کو ثبوت بھی بھیجے ہیں۔ ایس بی آئی کی نوئیڈا سیکٹر۔52 برانچ نے بینک کھاتہ کو آدھار سے لنک کرنے کے لئے جو خط بھیجا ہے اس میں ٹرانسپیرینٹ ونڈو پر کھاتہ ہولڈر کا نام، پتہ، موبائل نمبر تو لکھا ہی ہے ساتھ ہی اکاؤنٹ نمبر کا بھی تذکرہ ہے۔ یہ ہی نہیں خط کے اندر خود سے تصدیق کاغذوں کو ای ۔ میل پر اٹیچ کرکے بھیجنے کی تجویز گراہکوں کوبھیجی گئی ہے۔ جبکہ یہ جانکاری ای ۔ میل پر بھی پاس ورڈ پروڈکشن فائل کے ذریعے مان لی جانی چاہئے تھی۔ حیدر آباد ایس بی آئی کے کیش مینجمنٹ پروڈکٹ سیٹر نے جو انکم ٹیکس رفنڈ کا خط بھیجا ہے اس کے لفافہ کی شفافی ونڈو میں صارفین کا پین نمبر درج کیا گیا ہے۔ انہوں نے معاملہ کولیکر آر بی آئی کے گورنر سے درخواست کی ہے کہ وہ بینکوں کو انکم ٹیکس کی طرح پاس ورڈ پروٹیکٹیو فائل بھیجنے کا حکم جاری کریں۔ 
دیش کی تمام ایجنسیاں ڈاٹا کی خرید و فروخت کرتی ہیں اس سے کریڈٹ کارڈ، بیمہ کمپنیوں اور مارکٹنگ کمپنیوں سمیت دیگر کے پاس آسانی سے ڈاٹا پہنچ جاتا ہے۔ عام طور پر ان کا استعمال میسج بھیجنے، رابطہ قائم کرنے اور خط بھیجنے میں کیا جاتا ہے۔ نجی کمپنیاں لوگوں کے ڈاٹا بیچ کر کاربار کررہی ہیں اس کے ذریعے بیرون ملک سے آنے والی کمپنیاں اپنی حکمت عملی تیار کرتی ہیں اور رابطہ قائم کے ذریعے تعلق بناتی ہیں۔ تکنیک کے بڑھتے استعمال سے ذاتی معلومات محفوظ نہیں رہ گئی ہیں۔ سخت قانون کی کمی میں کمپنی میں ڈاٹا چوری کو کاروبار تک بنا لیا ہے۔ ڈاٹا محفوظ رکھنے کے لئے اس گورکھ دھندے پر نکیل کسی جانی انتہائی ضروری ہے۔ معاملہ سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔ ہمارے دیش میں سائبر کرائم کو روکنے کے لئے کوئی ٹھوس پالیسی نہیں ہے نہ کوئی ٹھوس مینجمنٹ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!