مغربی اترپردیش میں جرائم اور دہشت کا سایا

لدھیانہ میں17 اکتوبر کو آر ایس ایس کے لیڈر روندر گوسائیں کے قتل کے معاملہ میں ایتوار کی صبح مودی نگر علاقہ کے نہالی گاؤں سے پستول سپلائر ملوک کو گرفتار کرکے لوٹ رہی این آئی اے و پولیس کی ٹیم پر دیہاتیوں نے حملہ بول کر ملزم کو چھڑا لیا۔ پولیس نے اسے دوبارہ پکڑنے کی کوشش کی تو بھیڑ نے پتھراؤ بھی کیا اور گولیاں بھی چلائیں۔ اس سے کرائم برانچ کے سپاہی تہذیب خان زخمی ہوگئے۔ جیسے ہی پولیس اور ٹیم کے جوانوں نے ملوک کو گاڑی میں بٹھایا دیہاتیوں نے ٹیم کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور ان کے راستے میں بگی کھڑی کردی۔ دیہاتیوں نے پولیس سے پوچھا کہ وہ ملوک کو کیوں لے جارہے ہیں۔ اس درمیان عورتوں نے پولیس ٹیم پر پتھراؤ شروع کردیا۔ پولیس نے جب اس کی مزاحمت کی تو کچھ لڑکوں نے فائرنگ کردی۔ چاروں طرف سے گھرا دیکھ ٹیم جان بچا کر گاؤں سے بھاگ نکلی۔دوڑتے پولیس ملازم پر بھی عورتوں نے پتھر برسائے۔ قریب 10 منٹ تک پتھراؤ اور فائرنگ ہوئی۔ پولیس ٹیم پر اس حملہ سے پتہ چلتا ہے علاقہ میں کتنا ہتھیار وغیرہ جمع ہے۔ دراصل مغربی یوپی ہتھیار، اسمگلنگ، آتنکی کرپشن اور فرقہ وارانہ ہلچل کو لیکر خفیہ اور سیکورٹی ایجنسیوں کے لگاتار راڈار پر ہے۔دہلی کے قریب ہونے اور دیش کی ریاست کو بڑا موڑ دینے والا مغربی یوپی کتنا خطرناک ہوگیا ہے اس واردات سے پتہ چلتا ہے۔ کئی بڑی واردات میں مغربی یوپی کے کچھ گروہ یا یہاں پناہ لینے والے آتنکیوں کے رول کے بارے میں اطلاعات ملتی رہی ہیں۔ اب آر ایس ایس لیڈر کے قتل کے پیچھے بھی مغربی یوپی کا کنکشن سامنے آنے کے بعد دوبارہ الرٹ کردیا گیا ہے۔ مغربی یوپی سے وابستہ کئی جرائم پیشہ گروہ پیسہ لیکر فرقہ وارانہ اور ذات پات تشدد کی وارداتیں کرچکے ہیں۔ مظفر نگر دنگوں کے بعد یہاں آتنکی تنظیموں نے پیر جما لئے تھے۔ مقامی لڑکوں کو آتنکی تنظیم سے جوڑنے اور بڑی وارداتوں کو پلان کرنے کی سازش کی جارہی تھی۔ ایسے میں سیکورٹی ایجنسیوں کو ملی اطلاع کے بعد کام بھی شروع کیا گیا۔ تین سال قبل اس بات کا انکشاف ہوا کہ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے خود بھی کہا تھا کہ سیکورٹی ایجنسیوں کا اہم فوکس میرٹھ، غازی آباد، بلند شہر، سہارنپور ، مظفر نگر، بجنور، مرادآباد ،رام پور وغیرہ پر رہا ہے۔مقامی سطح پر ان تنظیموں کو مدد دینے والے لوگوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ ملوک کو پکڑنے والی این آئی اے، اے ٹی ایس اور مقامی پولیس کی ٹیم کو اس لئے بھاگنا پڑا کہ ان کے ساتھ درکار فورس نہیں تھی۔فورس کم ہونے کی وجہ سے سیکورٹی ایجنسیاں دیہاتیوں کے سامنے زیادہ دیر تک ٹک نہیں سکیں اور پوری فورس کو الٹے پاؤں لوٹنا پڑا۔ این آئی اے کے ترجمان کے مطابق آر ایس ایس نیتا کے قتل کی جانچ کے دوران کچھ مشتبہ اسمگلروں کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟