مودی عہد میں راہل کی چنوتیاں

47 سالہ راہل گاندھی کی کانگریس میں تاجپوشی طے ہوگئی ہے۔ وہ پارٹی کے اگلے صدر ہوں گے۔ یہ عہدہ سنبھالنے والے نہرو گاندھی خاندان کے چھٹے اور کانگریس میں وہ اپنی ماں سونیا گاندھی کی جگہ لیں گے۔ 132 سال پرانی پارٹی کانگریس میں سونیا سب سے زیادہ19 سال تک پارٹی کی صدر رہی ہیں۔ راہل گاندھی 13 سال تک ایم پی رہتے ہوئے صدر بننے جارہے ہیں۔ ویسے تو کانگریس پارٹی میں راہل گاندھی نائب صدر رہتے ہوئے اس وقت وہی رول نبھا رہے ہیں جو پارٹی صدر کو نبھانا چاہئے۔19 سال پہلے10 اپریل 1998 میں جب سونیا گاندھی نے کانگریس کی کمان سنبھالی تھی تب بھی پارٹی کی سیاسی حالت کمزور تھی۔ مئی 1991ء میں راجیو گاندھی کے قتل کے بعد سینئر لیڈروں نے سونیا سے پوچھے بغیر انہیں کانگریس کا صدر بنائے جانے کا اعلان کردیا لیکن سونیا نے اس کو منظور نہیں کیا۔ کانگریس کی حالت دن بدن بری ہوتی دیکھ سونیا گاندھی 1998 ء میں کانگریس کی صدر بنیں۔ ان کے عہد میں 2004ء ،2009ء میں کانگریس کی حکومت بنی۔ پارٹی نے 26 صوبوں میں سرکار بنائی۔ حالانکہ 2014 میں کانگریس نے پچھلے70 برس میں سب سے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ کانگریس کا 7 ریاستوں میں کھاتہ تک ہیں کھل سکا۔ لوک سبھا میں صرف 44 سیٹیں ملیں۔ کانگریس کا صدر بننے جارہے راہل گاندھی کے سامنے سب سے بڑی چنوتی پارٹی میں نئی جان ڈالنا اور اس کی تشکیل نو کرنا ہے، لیکن ایسا کرتے وقت انہیں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ نئی پیڑھی اور پرانی پیڑھی کے کئی نیتاؤں کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔ راہل کو پارٹی کے ورکروں اور نیتاؤں کا حوصلہ بڑھانے پر توجہ دینی ہوگی کیونکہ ایک کے بعد ایک چناوی ہار کے سبب ان کے اندر مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ ہماچل پردیش اور گجرات چناؤ میں اگر کانگریس ہار جاتی ہے تو اس کا پارٹی کے حوصلہ پر برا اثر پڑے گا۔ ہاں اگر کانگریس گجرات میں اپنی سیٹیں بڑھانے میں کامیاب رہتی ہے تو اسے راہل کی جیت مانا جائے گا۔ اگلے سال یعنی2018ء میں راہل کے سامنے کرناٹک میں اپنی سرکار بچائے رکھنے کی چنوتی بھی ہوگی۔ اس کے علاوہ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان میں اقتدار پر قابض بھاجپا کو اکھاڑ پھینکنے کا بھی ٹارگیٹ ہوگا۔ اس کے بعد 2019ء کے عام چناؤ میں ان 16 مہینوں میں پارٹی کو مضبوط کرنے کے ساتھ ہی راہل گاندھی کو اتحادی ساتھیوں کی بھی تلاش پوری کرنی ہے۔ صاف ہے کہ کانگریس اکیلے اپنے دم پر بھاجپا کا مقابلہ نہیں کرسکتی اس لئے اتحاد کرنا اس کی مجبوری ہوگی۔ اس معاملہ میں انہیں اپنی ماں سونیا گاندھی سے رائے لینی ہوگی جو 10 سال تک یوپی اے اتحاد رکھنے میں کامیاب رہیں تھیں۔ اب پارٹی کے صدر کے طور پر انہیں اپنا قد اتنا بڑھاناہوگا کہ کچھ علاقوں میں ان کا حوصلہ بڑھانے والے بونے نہ پڑ جائیں۔ اگلے یا اس سے اگلے عام چناؤ میں کانگریس اقتدار میں آتی ہے یا نہیں اتنا اہم نہیں ہے بھلے ہی کانگریس اپوزیشن میں رہے لیکن آل انڈیا پارٹی کی شکل میں اگر وہ ایک مضبوط پارٹی ہوکر ابھرتی ہے تو یہ ہماری جمہوریت کے لئے ایک اچھا اشارہ ہوگا۔ جمہوریت تبھی مضبوط مانی جاتی ہے جب حکمراں اور اپوزیشن دونوں ہی مضبوط ہوں۔ گجرات میں اونٹ چاہے جس کرونٹ بیٹھے، راہل گاندھی نے لوگوں کے درمیان اپنی پکڑ بنانے کی صلاحیت کو ثابت کیا ہے۔ دیش کو کانگریس پارٹی سے بہت امید ہے ، کیا راہل گاندھی پارٹی کے سامنے چنوتیوں کو قبول کرنے میں اہل ہوں گے؟ سوال کا جواب جلد مل جائے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟