سی پی ای سی کے خلاف پاکستان میں ناراضگی

چین۔ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پی ای سی) کے تحت پاکستان کی گوادر بندگاہ پر چین نے ترقیاتی کام شروع کئے تھے۔ بتادیں کہ قریب 60 ارب ڈالر کی تخمینہ لاگت والا یہ اقتصادی گلیارہ چین کے لئے ایک اہم ترین ون بیلٹ ، ون روڈ پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ ایسا کہا جاتا ہے یہ پروجیکٹ پاکستانی مقبوضہ کشمیر (پی او کے) کے ایک حصہ سے بھی گزرے گا۔ اس پروجیکٹ کے ذریعے چین کا شنگ زیانگ علاقہ پاکستان کے بلوچستان صوبہ سے جڑ جائے گا۔ حکومت پاکستان نے چین کے ساتھ ہوئے اس معاہدہ کو بڑے زور شور سے پاکستان کی معیشت کے لئے فائدہ مند بتایا اور پبلسٹی کی لیکن حقیقت اس کے ٹھیک برعکس ہے۔ پاکستان کے پوٹ اور شپنگ وزیر میر حاصل وجوزو نے پارلیمنٹ کے سامنے جو تصویر پیش کی ہے اس نے چین پاکستان کے درمیان معاہدہ کی پول کھول دی۔ وزیر موصوف نے بتایا کہ اگلے 40 سال تک گوادر بندرگاہ سے کمائی کا 91 فیصد حصہ چین کے حصہ میں جائے گا اور باقی9 فیصد پاکستان کے حصہ میں آئے گا۔ سمجھوتہ اگلے 40 برسوں کے لئے بلٹ ۔آپریٹ اور ٹرانسفر (بی او ٹی) ماڈل پر مبنی ہے۔ اس کا مطلب ہے پوٹ کے کارگو کی صلاحیت بڑھانے کیلئے اس پورے وقفے تک یہاں کا کام کاج اور بنیادی ڈھانچہ سہولیات پاکستان کے ذمہ ہوں گی۔پاکستان کی پارلیمنٹ نے سی پی ای سی معاہدہ پر پاکستان حکومت کے ذریعے خاموشی اختیار کرنے پر سوالیہ نشان کھڑا کیا تھا اور سمجھوتے کا فائدہ چین کوہونے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز پارٹی کی ایم پی کلثوم پروین نے کہا تھا سی پی ای سی معاہدہ برابری کی بنیاد پر نہیں ہوا ہے۔ جب پورے پاکستان میں اس سمجھوتے کے خلاف آواز بلند ہورہی ہے ایسے میں اس سمجھوتے کے حق میں بولتے ہوئے پی ایم ایل این کے ایم پی جاوید عباسی نے کہا سی پی ای سی کے تحت آنے والے پاور پروجیکٹ پاکستان کے بجلی بحران کو کم کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر بجلی پروجیکٹ بلوچستان اور سندھ صوبے میں قائم ہوں گے جس سے پاکستا میں 56 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی۔ سی پی ای سی کے تحت بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹ اور کئی انڈسٹریل زون بھی آئیں گے جس سے دیش میں روزگار بڑھے گا لیکن حقیقت میں پاکستان میں کل غیرملکی سرمائے کا 60 فیصد ہی چین سے آرہا ہے۔ اس کا اثر یہ ہورہا ہے پاکستان کی ساری کاروباری پالیسی چین کو ذہن میں رکھ کر بنائی جارہی ہے۔ جس سی پی ای سی کو پاکستان کے فائدے میں بتایا جارہا تھا اب اس کی اصلی تصویر سامنے آرہی ہے۔ تازہ رپورٹ کے مطابق اس سمجھوتہ کے تحت بن رہے کم سے کم تین بڑے پروجیکٹوں میں کرپشن کی خبریں سامنے آنے کے بعد چین نے ان منصوبوں کے لئے فنڈنگ روکنے کا فیصلہ لیا ہے۔ پاکستانی اخبار ڈان نے شائع اپنی رپورٹ میں اس کا خلاصہ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین حکومت کے اس فیصلہ کے سبب پاکستان نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کی ایک لاکھ کروڑ ڈالر کے سڑک پروجیکٹ کو جھٹکا لگے گا۔ یہی نہیں اس فیصلہ کی وجہ سے کم سے کم تین پروجیکٹ میں تاخیرکا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے۔ چین کے اس قدم سے پاک حکام حیران ہیں۔ ایک سینئر افسر نے بتایا بیجنگ کے ذریعے نئی گائڈ لائنس جاری ہونے کے بعد اب پروجیکٹوں سے متعلق فنڈ جاری کیا جائے گا۔ پاکستان میں اس بات کو لیکر ناراضگی ہے کہ جو سمجھوتہ کیا گیا ہے وہ پاکستان کے مفاد میں نہیں دکھائی پڑتا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟