دیوالی اور راہل کی تاجپوشی سے پہلے گورداسپور کا تحفہ

کانگریس نے برسوں بعد بی جے پی سے گورداسپور کا قلعہ چھین لیا۔ اس سیٹ پر ہوئے ضمنی چناؤ میں کانگریس نے اتنی زبردست سیند لگائی کہ بی جے پی بھاری فرق سے ہاری ہے اور پنجاب کی سیاست میں داخل ہوچکی عام آدمی پارٹی کی ضمانت بھی نہیں بچی۔ ایتوار کو ہوئی گنتی میں کانگریس کے امیدوار سنیل جاکھڑ نے بی جے پی کے سورن سداریہ کو 193219 ووٹوں کے بھاری فرق سے ہرایا۔ سال1952 سے لیکر 2014 تک ہوئے لوک سبھا چناؤ میں کانگریس کا ہی اس سیٹ پر دبدبہ تھا لیکن اس کے بعد بی جے پی سے فلم اداکار ونود کھنہ کو لے آئی اور کانگریس کی روایتی سیٹ چھین لی۔ ونود کھنہ نے اپنے آخری چناؤمیں سال2014 میں علاقہ سے مضبوط کانگریسی سرکردہ لیڈر پرتاپ باجوا کو 136000 ووٹوں کے فرق سے ہرایا تھا۔ گجرات اور ہماچل پردیش اسمبلی چناؤ سے ٹھیک پہلے بھاجپا کو گورداسپور کی ہار کی ایک بڑی وجہ تھی اہل امیدوار کا نہ چنا جانا۔ سورگیہ ایم پی ونود کھنہ کی اہلیہ کویتا کھنہ کی جگہ پارٹی نے متنازعہ ساکھ کے صنعت کار سورن سنگھ سداریہ پر بھروسہ جتایا اور یہ ہی اس سے بھول ہوگئی۔ سال2014 لوک سبھا چناؤ میں ونود کھنہ کو شرابی بتانے والے سداریہ ان کے دیہانت سے پیدا ہمدردی کو بھی ووٹوں میں تبدیل نہیں کرسکے۔ چناؤ کمپین کے دوران سداریہ سے جڑے آبروریزی کے ایک پرانے معاملہ نے بھی ان کے تئیں منفی ماحول بنایا۔ ونود کھنہ کے دیہانت کے بعد پارٹی کی ریاستی یونٹ اس سیٹ سے ان کی اہلیہ کویتا کھنہ کو امیدوار بنانا چاہتی تھی مگر پارٹی لیڈر شپ نے سداریہ کو امیدوار بنایا۔ اور یہ غلطی پارٹی اعلی کمان کو بھاری پڑی۔ دوسری طرف سنیل جاکھڑ یہ ضمنی چناؤ جیتنے سے پہلے تین بار ابوہر اسمبلی سیٹ سے چناؤ جیت چکے ہیں۔ ابوہر سیٹ پر انہوں نے 2002 ،2007و 2017 میں جیت حاصل کی تھی۔ وہ سابق لوک سبھا اسپیکر و مرکزی وزیر ڈاکٹر بلرام جاکھڑ کے بیٹے ہیں اور کسان لیڈر ہیں۔ پنجاب کی گورداسپور لوک سبھا سیٹ اور کیرل کی وینگارا اسمبلی سیٹ پر ضمنی چناؤ نتائج نے کانگریس کو چاردن پہلے ہی دیوالی کے جشن میں شرابور کردیا ہے۔ 2014ء کے بعد بھاجپا نے یہ دوسری لوک سبھا سیٹ گنوائی ہے۔ اس سے پہلے نومبر2015 ء میں رتلام جھابوا سیٹ بھی کانگریس نے جیتی تھی۔ حوصلہ بڑھانے والی یہ جیت کانگریس کو ایسے وقت ملی جب ایک طرف راہل گاندھی کی کانگریس صدر کی حیثیت سے تاجپوشی کی تیاری ہورہی ہے اور دوسری طرف ہماچل اور گجرات میں اسمبلی چناؤ ہونے جارہے ہیں۔ لوک سبھا اور اسمبلی کی 1-1 سیٹ کے ضمنی چناؤ نتائج کو پورے دیش کا موڈ نہیں مانا جاسکتا لیکن سیاست میں چھوٹے موقعہ بھی شگن کا کام کرتے ہیں۔ اگر کانگریس ہارتی تو راہل پر ایک اور ہار کا ٹھیکرا پھوڑا جاتا جس کا اثر ان کی خود اعتمادی پر بھی پڑتا، اب وہ ونر کی شکل میں ہماچل اور گجرات میں چناوی کمپین کی قیادت کرسکیں گے۔ راہل کی تاجپوشی سے ٹھیک پہلے یہ اچھا شگن آیا ہے ۔ کانگریس کے حکمت عملی ساز مانتے ہیں کہ پنجاب کی طرح اگر پارٹی ہماچل اور گجرات میں متحد ہوکر چناؤ لڑے تو جیت کے اچھے آثار بن سکتے ہیں۔ اس نتیجے سے کانگریسی ورکروں کا حوصلہ بڑھا ہے۔ پارٹی اس جیت کو جی ایس ٹی ، بڑھتی بے روزگاری اور کسانوں کی ناراضگی کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ پنجاب پردیش کانگریس صدر سنیل جاکھڑ کی اس جیت کا فائدہ یوپی اور راجستھان میں ہونے والے ضمنی چناؤ میں بھی اٹھانے کی تیاری کررہی ہے۔ گجرات کے ساتھ چناؤ کمیشن یوپی اور گورکھپور، پھولپور ، راجستھان کے الور ، اجمیر سیٹ پر چناؤ کا اعلان کرسکتا ہے۔ لوک سبھا چناؤ کے بعد سے لگاتار چھوٹے بڑے چناؤ میں ہار کا سامنا کررہی کانگریس کے لئے گجرات میں راجیہ سبھا سیٹ پر جیت کے بعد چھوٹی کامیابیوں کی راہ میں یہ بڑی جیت مانی جارہی ہے۔ گورداسپور میں ملی جیت ٹانک سے کم نہیں ہے۔ دراصل کانگریس ہائی کمان کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ جب راہل گاندھی پارٹی کی کمان سنبھالیں تو ان کے آس پاس کامیابی کا ماحول رہے۔ وہ پارٹی کی جیت کا حوصلہ مضبوط دیتے دکھائی دیں جس سے وہ اپنی لیڈر شپ کو بلا تنازعہ قائم کرسکیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟