ہند کی شان’تاج محل‘ پر نفرت کی سیاست

دنیا بھر میں محبت کی نشانی کے طور پر اپنی پہچان رکھنے والے اور دنیا کے 7 عجائب میں شامل آگرہ کا تاج محل آج ایک غیر ذمہ داربھاجپا ممبر اسمبلی کی بکواس کے سبب بلا وجہ تنازعات کا موضوع بنا ہوا ہے۔ غور طلب ہے کہ میرٹھ کے سردھنا سے بھاجپا کے ممبر اسمبلی سنگیت سوم نے کہا تھا کہ غداروں کے بنائے تاج محل کو تاریخ میں جگہ نہیں ملنی چاہئے۔ یہ ہندوستانی تہذیب پر دھبہ ہے۔ تاج محل بنانے والے مغل حکمراں نے اترپردیش اور ہندوستان سے سبھی ہندوؤں کا سروناش کیا تھا۔ ایسے حکمراں و اس کی عمارتوں کا نام اگر تاریخ میں ہوگا تو وہ بدلا جائے گا۔ ایسا بیہودہ بیان سنگیت سوم نے کیوں دیا؟ مانا جارہا ہے پارٹی میں کچھ دنوں سے الگ تھلگ پڑے سنگیت سوم نے بحث میں رہنے کے لئے ایسا متنازعہ بیان دیا ہے ساتھ ہی خود کے خلاف پارٹی مخالف کام کرنے کے الزام میں کارروائی کرنے کی ضلع بلاک کی سفارش کی روکنے کا دباؤ بنانے کے لئے سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت یہ متنازعہ بیان دیا ہے۔دراصل ضلع پنچایت چیئرمینی کے چناؤ میں سوم نے بھاجپا مخالف امیدوار کی حمایت کی تھی۔ حالانکہ جسے انہوں نے حمایت دی وہ ہار گیا۔ اس کو لیکر بی جے پی ضلع پردھان شیو کمار رانا نے پردیش لیڈر شپ کو خط لکھ کر سوم سنگیت کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔ سنگیت سوم مشتعل فرقہ وارانہ بیانات کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تاج محل کے بارے میں انہوں نے جو کچھ کہا وہ ان کے خاص طرح کے مزاج کا ہی اظہار کرتا ہے لیکن اس سلسلے کی شروعات ہوئی اس خبر سے اترپردیش کے محکمہ سیاحت نے ریاست کے سیاحتی مقامات کی فہرست سے تاج محل کو ہٹا دیا ہے۔ اس پرتنازعہ اٹھنا ہی تھا۔ فطری طور سے ریاستی حکومت کی ہی کافی کرکری ہوئی اور اگر بھاجپا کے لوگ سوچتے ہیں کہ ایسے بیانوں سے تنازعوں میں انہیں سیاسی فائدہ ہوگا تو ان کا یہ تصور غلط ہے اور غلط فہمی مانی جائے گی۔ تاج محل کے ساتھ پورے دیش کے جذبات جڑے ہوئے ہیں ۔ وہ اسے دنیا بھر کو راغب کرنے والی ایسی وراثت کے طور پر دیکھتے ہیں جس پر انہیں ناز ہے۔ اترپردیش اس پر ناز کرتا آیا ہے کہ تاج محل ان کے پاس ہے۔ یہ بھارت کے سیاحتی مقام اور فنکاری اور کاریگری کا ایک بے مثال نمونہ ہیں۔ مٹھی بھر لوگ ہی ہوں گے جو اسے مذہب یا فرقہ کے چشمے سے دیکھیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ خود بھاجپا سرکار کے مرکزی وزیر مہیش شرما، سنگیت سوم جیسے لوگوں کی رائے سے اتفاق نہیں رکھتے۔ دو دن پہلے ہی انہوں نے کہا کہ تاج محل کو سیاحتی مقامات کی فہرست سے ہٹائے جانے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ یہ دنیا کے 7 عجائب میں شامل ہے اور دیش کی چند خوبصورت وراثتوں میں شمار ہے۔ بھارت گھومنے آنے والا شاید ہی کوئی سیاح ہو جو تاج محل کا دیدار نہ کرتا ہو۔تاج محل ہو یا لال قلعہ یہ ہماری وراثت کا اٹوٹ حصہ ہیں اور ان کی تاریخی حیثیت پر نئے سر سے کچھ کہنے سننے سے وہ حقیقت نہیں بدلے گی جو تاریخ کے اوراق میں ان کے بارے میں عرصے سے درج ہے۔ چناوی سیاسی فائدے نقصان کے ذریعے سے کچھ لیڈر ان پر کوئی تبصرہ کرتے ہیں ، تو انہیں سمجھنا ہوگا کہ ایسی بیان بازی خود ان کی سیاست کو زیادہ دور نہیں لے جائے گی بلکہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایسے نیتا اپنے بگڑیل بیانات کی وجہ سے جنتا میں اپنی امیج کھو بیٹھیں۔ بھاجپا ڈسپلن کا دم بھرتی رہی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ان کے ایک ممبر اسمبلی کو ایسا بیہودہ بیان دینے کی کھلی چھوٹ کیوں دی جارہی ہے۔ یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ سنگیت سوم پر پارٹی اعلی کمان کیا کارروائی کرتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!