کیا گورداسپور ہار سے بھاجپا اعلی کمان کوئی سبق لے گا

گجرات،ہماچل پردیش ،تاملناڈو، مغربی بنگال اور اڑیسہ و راجستھان میں مجوزہ چناؤ کی حکمت عملی پر عمل کررہے پی ایم مودی اور بھاجپا صدر امت شاہ کو پنجاب میں بھاجپا کی لگاتار گر رہی ساکھ پر فکر مند ہوناچاہئے۔ گورداسپور لوک سبھا ضمنی چناؤ میں کانگریس کی بڑی جیت کو بھاجپا کیلئے زبردست جھٹکا مانا جارہا ہے۔ حالانکہ پارٹی کے لیڈروں کو لگ رہا ہے کہ اس کی وجہ پارٹی یونٹ میں چل رہی گروپ بندی اور قومی لیڈر شپ کی بے رخی بھی ہے۔ پارٹی کے اندر بھی یہ تجزیہ کیا جارہا ہے کہ اس ہار کا پنجاب کی حکمت عملی پر دور رس اثر پڑے گی کیونکہ ریاست میں بی جے پی اور کمزور ہوگئی ہے۔ بھاجپا کے لئے تشویش کا باعث یہ بھی ہونا چاہئے کہ ہماچل پردیش میں چناؤ سر پر ہیں اور ہماچل کا ایک بڑا حصہ پنجاب کے گورداسپور کے بارڈر سے جڑا ہوا ہے جہاں اس ضمنی چناؤ کا سیدھا اثر پڑ سکتا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلی کیپٹن امرندر سنگھ کی بڑھتی مقبولیت کو کانگریس ہماچل میں ضرور بھانے کی کوشش کرے گی۔ پنجاب کی طرح ہی ہماچل پردیش سے بھی بہت زیادہ تعداد میں لوگ فوج میں ہیں۔ کیپٹن بھی فوج سے جڑے رہے ہیں اور فوجیوں و ان کے رشتے داروں کے حق میں آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ ایسے میں یہ مانا جارہا ہے کہ چناؤ کمپین کے میدان میں ان کی موجودگی ہماچل کے کانگریسی قلعہ کو بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ گورداسپور ضمنی چناؤ بی جے پی کے لئے اہم ترین تھا کیونکہ اس کے پاس یہ موقعہ تھا کہ وہ اس سیٹ کو پھر سے جیت کر کانگریس کی ریاستی سرکار کی ناکامیوں کو اجاگر کرسکتی تھی لیکن پارٹی اس میں ناکام رہی ہے۔ بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر کے مطابقبی جے پی کی ہار توہوئی ہے لیکن ووٹوں کا فرق زیادہ تھا۔پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ضمنی چناؤ میں خود پارٹی کے اعلی نیتاؤں نے کوئی دلچسپی نہیں لی۔ یہاں تک کہ کوئی قومی سطح کا لیڈر اس ضمنی چناؤ میں کمپین کرنے تک نہیں گیا۔ اس ضمنی چناؤ میں بھاجپا۔ اکالی دل کے درمیان نوک جھونک نظر آئی۔ 
سابق وزیر اعلی پرکاش سنگھ بادل اس بار بھی چناؤ کمپین کیلئے نہیں آئے۔ ادھر کانگریس کے لیڈر اور وزیر اعلی کیپٹن امریندر سنگھ سے لیکر نوجوت سنگھ سدھو سمیت بڑے نیتا مسلسل اپنے امیدوار کے حق میں چناؤ کمپین کرتے رہے اس سے بھی کانگریس کے تئیں لوگوں میں مثبت پیغام گیا۔ ادھر اسمبلی چناؤ میں شکست کے بعد عام آدمی پارٹی دعوی کرتی رہی ہے کہ پنجاب میں اس کی لہر تھی ۔ مرکزی سرکار کی شہ پر ووٹنگ مشینوں میں گڑبڑی کرکے اسے ہرایا گیا۔ اسے بھی اب اپنے مینڈیٹ کی حقیقت کا پتہ چل گیا ہوگا۔ اس ضمنی چناؤ میں بھاجپا کی ہار کے پیچھے ایک بڑی وجہ نوٹ بندی اور پھر جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد کسانوں اور کاروباریوں پر پڑ رہے منفی اثر کو لیکر ان کی ناراضگی کو بھی مانا جارہا ہے۔ کیا بی جے پی اعلی کام اس سے فکر مند ہے؟ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟