آخر آروشی اور ہیمراج کا قتل تو ہوا ہے

9 سال پہلے دنیا بھر کو جھنجھوڑ دینے والا آروشی ۔ہیمراج قتل سانحہ ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے ذریعہ قصوروار قراردئے گئے آروشی کے والدین کو جمعرات کے روز الہ آباد ہائی کورٹ نے قتل کے الزامات سے بری کردیا ہے۔ عدالت کے اس فیصلہ نے یہ سوال پھرسے کھڑا کردیا ہے آخر دونوں کا قتل کس نے اور کیوں کیا؟ ساڑھے چار سال تک ریاستی پولیس کے ساتھ ہی سی بی آئی کی دو ٹیموں نے جانچ کی ،پانچ لوگ گرفتار کئے گئے، پولیس و سی بی آئی کی جانچ میں الگ الگ نتیجے نکلے اور لگا کہ شاید دیش کی سب سے بڑی مرڈر مستری سے پردہ اٹھ گیا ہے لیکن الہ آباد ہائی کورٹ نے راجیش اور نپر تلوار کو شبہ کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا ہے۔ اور تو اور آروشی مرڈر کیس پر اب تک دو فلمیں بھی بن چکی ہیں لیکن دونوں فلمیں کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پائیں۔ جنوری 2015ء میں آئی فلم ’رہسہ‘ اور اسی سال آئی فلم ’تلوار‘ میں دیش کو جھنجھوڑ دینے والی اس مرڈر مستری کے تمام سروں کو جوڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔ منیش گپتا کی ہدایت میں بنی فلم ’رہسہ‘ میں کے کے مینن ، ٹسکا چوپڑہ اور آشیش ودیارتی جیسے منجھے ہوئے اداکاروں نے اداکاری کی تھی ، تو تلوار کی کہانی جانے مانے ہدایت کار وشال بھاردواج نے مہینوں کی رریسرچ کے بعد لکھی تھی۔ فلم کو میگھنا گلزار نے ہدایت دی تھی۔ ان میں آروشی مرڈر مستری کی کہانی بیاں کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مرڈر کی رات کیا کیا ہوا ہوگا، مرڈر میں کن ہتھیاروں کا استعمال کیا ہوگا معاملہ کیسے کھلا وغیرہ نکتوں کی تہہ تک جانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن دونوں فلمیں کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکیں۔ فلم ’رہسہ‘ کی تو تلوار میاں بیوی نے کافی مخالفت کی تھی۔ بعد میں منیش گپتا نے صفائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ فلم سسپنس ڈرامہ ہے اس کا آروشی مرڈر سے کوئی سیدھا تعلق نہیں ہے۔ مرڈر مستری پر جرنلسٹ اویروک سین کی کتاب ’آروشی‘ بھی کافی سرخیوں میں رہی۔ اس کتاب میں سین نے سی بی آئی کی جانچ کارروائی پر کئی سوال کھڑے کئے ہیں اور سلسلہ وار اسے بیان کیا ہے۔ دوسری طرف ایک دیگر پتر کار نے بھی واردات پر قاتل زندہ ہے ، ایک تھی آروشی نام سے کتاب لکھی ہے۔ اس میں پوری واردات کی پڑتال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ 10 ویں میں زیر تعلیم آروشی 16 مئی 2008ء کواپنے کمرے میں مردہ پائی گئی تھی اور اس کے اگلے دن ڈینٹنسٹ تلوار میاں بیوی کو اس گھر کی چھت سے ان کے نوکر ہیمراج کی لاش برآمد ہوئی تھی۔ اور دوہرے قتل نے نوئیڈا کے اس درمیانی رہائشی کالونی کو ہی نہیں پورے دیش کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور میڈیا نے اسے سنسنی خیز قتل سانحہ کو اتنی توجہ دی کہ کئی بار تو آئی پی ایل سے بھی کہیں زیادہ اس کی ریٹنگ اور اس کی رپورٹنگ کو ملی ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی ڈویژن بچ میں شامل دو ججوں نے اپنا الگ الگ فیصلہ سنایا۔ حکم میں کہا گیا ہے کہ سی بی آئی اس قتل سانحہ میں نپر میاں بیوی کے ملوث ہونے پر شبہ کو ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ سی بی آئی اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی کیونکہ اصل سوال تو آج بھی بنا ہوا ہے ۔ شروع سے ہی مختلف موڑ کیلئے مشہور اس معاملہ میں تین جانچوں کے باوجود بنیادی سوالوں کے جواب آج تک نہیں مل سکے۔ سچ پوچھا جائے تو تلوار میاں بیوی کو نہ تو سزا دینے کا کوئی پختہ ثبوت تھا اور نہ ہی انہیں بے قصور ہونے کی کوئی ٹھوس بنیاد تھی۔ ان کی رہائی صرف انصافی کتاب کے اس بنیادی اصول کے تحت ہوئی کے 100 جرائم پیشہ بھلے ہی چھوٹ جائیں لیکن ایک بھی بے قصور کو سزا نہیں ملنی چاہئے لیکن آروشی اور ہیمراج کا قتل تو ہوا ہے۔ سوال وہیں کا وہیں ہے کہ آخر قاتل کون ہے اور قتل کیوں ہوئے؟ کیا اس مرڈر مستری سے کبھی پردہ اٹھے گا؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!