چین بھارت کو ہر سیکٹر میں گھیرتا جارہا ہے
چین کے بڑھتے اثر سے بھارت کا فکر مند ہونا فطری ہی ہے۔ نریندر مودی حکومت کی ایسٹ پالیسی کے تحت بھارت نے ان مشرقی ایشیائی ملکوں سے پچھلے تین برسوں میں انفرسٹرکچر اور دیگر پروجیکٹ پر کام کیا ہے لیکن غیر ملکی معاملوں میں نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ ون بیلٹ ،ون روڈ یا اوبی اے آر پروجیکٹ کے تحت چین کی زبردست سرمایہ کاری میں ان ریجن میں سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے ، جس کا اثر بھارت پر پڑے گا۔ کمبوڈیا اور لاؤس جیسے ملکوں میں چین کے انویسٹمنٹ کا مقصد ریجنل کنکٹوٹی کے ساتھ ہی اپنا اثر بڑھانا ہے۔ چین کی طرف سے 14-15 مئی کو او بی او آر پر منعقد کی جارہی میٹنگ میں کمبوڈیہ ، لاؤس، انڈونیشیا اور میانمار حصہ لینے جارہے ہیں۔ ادھر چین نے کشمیر پر ثالثی کی بھی خواہش ظاہر کی ہے۔ اب تک وہ اس مسئلے کا حل بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کے ذریعے کرنے کی نصیحت کرتا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر سے گزرنے والے پاک ۔چین اکنامک گلیاری میں قریب 50 ارب ڈالر (قریب 3210 ارب ) کی بھاری بھرکم سرمایہ کاری میں بیجنگ کو اپنا رخ بدلنے کے لئے مجبور کیا ہے۔ اس گلیاری کی تعمیر بھارت کے اعتراضات کو درکنار کیا جارہا ہے۔ چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمس نے کہا ہے کہ علاقے میں بڑا رول نبھانے میں چین کے درپردہ مفادات ہیں۔ اخبار نے لکھا ہے کہ ون بیلٹ، ون روڈ میں آنے والے ملکوں میں چین میں بھاری بھرکم سرمایہ کاری کی ہے۔ ایسے میں اب بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر تنازعہ سمیت دیگر علاقائی تنازعہ حل کرنے میں مدد کرنا چین کے مفاد میں ہے۔ گزشتہ مہینے امریکہ نے بھی کشمیر کو ثالثی کی پیشکش کی تھی۔ بھارت نے اسے خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاملہ میں کسی تیسرے فریق کا دخل منظور نہیں ہے۔ اس معاملے میں دخل دینے کی پاک کی مانگ کو اقوام متحدہ بھی کئی موقعوں پر ٹھکرا چکا ہے اور اسے بھارت کے ساتھ بات چیت کا حل تلاشنے کو کہہ چکا ہے۔ بتادیں مقبوضہ کشمیر سے گزرنے والا چین ۔ پاک اقتصادی گلیارہ چین کے شنگ زیانگ کو پاک کے گوادر بدرگاہ سے جوڑے گا۔ اس علاقہ میں چینی فوج کی موجودگی کی خبریں کئی بار آچکی ہیں۔ حالانکہ چین کا دعوی ہے کہ امکانی مدد دستیاب کرانے کے لئے ہمارے فوجی مقبوضہ کشمیر میں ہیں۔ چین بھارت کو ہر سیکٹر میں گھیرتا جارہا ہے۔نیپال سے لیکر سری لنکا و پاکستان کو ہر ممکن مدد کرکے بھارت کے اثر اور آپسی رشتوں کو نقصان پہنچانے میں لگا ہوا ہے۔ بھارت سرکار کو چین کی اس بڑھتی سرگرمیوں کی کاٹ کرنے کیلئے ٹھوس پالیسی بنانی ہوگی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں