بے لگام ججوں سے محاذ آرا ہماری عدلیہ!
ہندوستانی عدلیہ آج کل بہت ہی عجیب و غریب صورتحال سے دوچار ہے۔ بصد احترام سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ جج ایک دوسرے کے خلاف حکم پاس کررہی ہیں۔ بات کررہا ہوں سپریم کورٹ و کولکاتہ ہائی کورٹ کے جسٹس سی ۔ایم۔ کرنن کے درمیان جاری تنازعے کے بارے میں۔ سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے الزامات کا سامنا کررہے جسٹس کرنن ایک کے بعد ایک حکم پاس کررہے ہیں۔ سپریم عدالت کے سینئر ججوں کی بنچ کولکاتہ ہائی کورٹ کے موجودہ جج سی ۔ ایم۔ کرنن کے خلاف توہین عدالت کارروائی میں ایک کے بعد ایک آرڈر پاس کررہی ہے۔ وہیں جسٹس کرنن عدلیہ و انتظامی کام کاج واپس لئے جانے کے باوجود سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف آرڈر دیتے جارہے ہیں۔ تازہ آرڈر جسٹس کرنن نے جو دیا ہے اس میں انہوں نے چیف جسٹس جسٹس جے ۔ ایس۔ کھیر سمیت سپریم کورٹ کے 8 ججوں کو ہی پانچ سال کی بامشقت قید کی سزا سنا دی۔ جسٹس کرنن نے سزا سناتے ہوئے کہا کہ ان 8 ججوں نے ایس سی ایس ٹی مظالم قانون کے تحت قابل سزا جرم کیا ہے۔ انہوں نے اپنے حکم میں سی جی آئی کھیر سمیت 7 نفری بنچ میں شامل جسٹس دیپک مشرا، جسٹس جے۔ ایس چلمیشور، جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس مدن بی لوکر، جسٹس پناکی چندراگھوش اور جسٹس ارین جوزف کو قصوروار ٹھہرایا ہے۔ جسٹس کرنن نے لکھا ہے 13 اپریل کو میں نے 7 ججوں کی بنچ پر 14 کروڑ روپے کا جرمانہ لگایا تھا۔ یہ حکم ابھی بھی لاگو ہے۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار جنرل کو انہوں نے تازہ حکم میں ہدایت دی ہے کہ یہ رقم ججوں کی تنخواہ سے کاٹی جائے۔ وہیں جسٹس بھانومتی پر دو کروڑ روپے کا جرمانہ بھی لگایا گیا۔ جواب میں سپریم کورٹ نے منگلوار کو ایک غیر متوقعہ حکم میں جسٹس کرنن کو عدلیہ کی توہین کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ا نہیں چھ مہینے کی جیل کی سزا سنائی۔ عدالت نے جسٹس کرنن کو فوراً حراست میں لینے کا حکم دیا۔چیف جسٹس جگدیش سنگھ کھیر کی رہنمائی والی 7 نفری آئینی بنچ نے کہا کہ ہمارا اتفاق رائے سے یہ خیال ہے کہ جسٹس سی ایس کرنن نے عدلیہ کی توہین اور عدلیہ کا اور اس کی کارروائی کی توہین کی ہے۔ یہ پہلا موقعہ ہے جب سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے الزام میں ہائی کورٹ کے کسی موجودہ جج کو جیل بھیجا ہے۔ بنچ نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھی جسٹس کرنن کے ذریعے اب پاس کسی بھی حکم کی تفصیل شائع یا ٹیلی کاسٹ کرنے سے روک لگادی ہے۔ جسٹس کرنن 11 جون کو ریٹائرڈ ہونے والے ہیں۔ اگر عدلیہ کسی بھی وجہ سے خود کٹہرے میں کھڑی دکھائی دیتی ہے تو جنتا کے اعتماد کو جھٹکا لگتا ہے۔ 1993ء میں سپریم کورٹ کے جسٹس وی راما سوامی کے خلاف پارلیمنٹ میں مقدمہ چلایا گیا لیکن کانگریس کے ذریعے ایوان سے بائیکاٹ کے چلتے لوک سبھا میں لایاگیا امپیچمنٹ ریزولوشن گرگیا تھا۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پی ڈی دناکرن پر کرپشن کے الزام لگے تھے سپریم کورٹ کالیجیم نے جانچ پوری ہونے تک انہیں لمبی چھٹی پر جانے کی صلاح دی تھی لیکن وہ نہیں مانے تو کرناٹک سے ان کا ٹرانسفر سکم ہائی کورٹ کردیا گیا۔ کولکاتہ ہائی کورٹ کے جسٹس سمترا سین کو انٹرنل جانچ کمیٹی نے برتاؤ کیلئے قصوروار پایا تو ان سے استعفیٰ دینے کو کہا گیا۔ انہوں نے انکار کردیا۔ ان کے خلاف پارلیمنٹ میں مقدمہ چلایا گیا جو راجیہ سبھا میں تو پاس ہوگیا لیکن لوک سبھا کے ذریعے غور کرنے کیلئے ایک دن پہلے انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ایسے معاملوں میں کئی ایسے ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں عدلیہ کی پوتر گائے والی ساکھ گری ہے۔ ہمیں معلوم نہیں تازہ معاملے میں کیا آخری فیصلہ ہوتا ہے ہم تو بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ عدلیہ کے ہر جج کو سوچنا چاہئے کہ عدلیہ اس دیش کی آخری امید ہے اور اس کی پاکیزگی کو بچا کر رکھنا اس کا سب سے بڑا فرض ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں