نربھیا کے خاطیوں کو موت اور بلقیس کیس میں عمر قید

سپریم کورٹ نے نربھیا آبروریزی معاملہ میں لمبی سماعت کے بعد چاروں خاطیوں کی پھانسی کی سزا برقرار رکھ کر اس جرم کی حیوانیت کو تو مانا ہی بلکہ اپنے فیصلے کے ذریعے عدالت نے یہ بھی صاف کردیا ہے کہ جرم کے ایسے گھناؤنے معاملے میں سزائے موت کے علاوہ اور کوئی متبادل نہیں ہے۔ عدالت نے کہا قصورواروں نے بربریت اورظلم کے ٹرینڈ کی سبھی حدیں پار کردیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کہانی کسی دوسری دنیا کی ہے جہاں انسانیت کی کوئی قدر نہیں ہے۔ جانوروں کی طرح اپنی ہوس اور مزے کے لئے لڑکی کو تفریح کا ذریعہ بنادیا۔ مجرموں نے جو کیا اس نے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ واردات حیران کن اور صدمے کی سونامی کی طرح ہے۔ انہوں نے اپنی ہوس کے لئے لڑکی کے جسم کو تار تار کیا اور سنک میں اسے کومہ میں دھکیل دیا۔ جاڑے کی رات میں اسے دوست کے ساتھ بنا کپڑوں کے سڑک پر پھینک دیا۔ ان پر بس چڑھانے کی بھی کوشش کی۔ لڑکی کے جسم کا کوئی ایسا حصہ نہیں تھا جہاں اسے دانتوں سے نہ کاٹا ہو اور لوہے کی چھڑ کو اس کے پرائیویٹ پاٹ میں ڈالا گیا جس سے اس کی آنتیں تباہ ہوگئیں۔ قصورواروں کی حرکتیں ان کے ذہنی پاگل پن کو اجاگر کرتی ہیں جو تصور سے پرے ہے اور بربریت کی حد پار کرتا ہے۔ سخت سزا سے ہی سماج میں بھروسہ بنے گا۔ ایسے جرم میں موت کی سزا کے علاوہ کوئی اور کسوٹی نہیں ہوسکتی۔ عمر، بچے، بوڑھے اور ماں باپ کی دلیل بھی نہیں ۔ نربھیا معاملے کو اس انجام تک پہنچانے میں دہلی پولیس اور آئینی ثبوتوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ دہلی پولیس کے افسر اس فیصلے کو لائق تلقین مانتے ہیں۔ یہ فیصلہ پوری دہلی پولیس کی جیت ہے۔ پوری ٹیم نے نہ صرف بہتر طریقے سے جانچ کی بلکہ سبھی ثبوتوں کو بہتر طریقے سے پیش کیا۔ بیشک اس فیصلے کا خیرمقدم ہے اور ہم سپریم کورٹ کو مبارکباد دینا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کیا اس سے ریپ کے معاملے رکیں ہیں یا کم ہوئے ہیں؟ نہیں ۔ آج بھی آبروریزی کے معاملے میں دہلی سب سے اوپر ہے۔ کرائم رپورٹ بیورو کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ نربھیا کانڈ کے بعد بھی دہلی میں فی لاکھ کی آبادی پر 28 عورتوں پر ظلم ہو رہے ہیں۔ دہلی میں فی لاکھ کی آبادی پر 23.7 فیصد عورتوں سے آبروریزی ہوئی ہے۔ دہلی میں 2199 عورتوں کے ساتھ آبروریزی کے واقعات درج ہوئے ہیں۔ یہی حال تقریباً دیش کے دیگر حصوں میں بھی ہے۔ ہمارے دیش کا جوڈیشیل سسٹم ایسا ہے کہ ایسے معاملوں میں بھی برسوں لگ جاتے ہیں۔ یہ واردات 16 دسمبر 2012ء کی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو آنے میں تقریباً ساڑھے چارسال لگ گئے ہیں اور ابھی بھی پھانسی دینے میں وقت لگے گا۔پھانسی سے بچنے کے لئے ابھی بھی قصورواروں کے پاس تین موقعہ ہیں۔ قصور وار فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی عرضی داخل کرسکتے ہیں۔ اس کی سماعت کے لئے سزا دینے والی بنچ سے زیادہ ججوں کی بنج بنانی ہوگی۔ اگر قصورواروں کو نظرثانی عرضی میں بھی راحت نہیں ملی تو ملزمان کیوریٹیو پوٹیشن ڈال سکتے ہیں اس میں فیصلے میں اصلاح کے لئے درخواست کی جاتی ہے۔کیوریٹیو پوٹیشن میں بھی پھانسی برقرار رہی تو صدر کے سامنے رحم کی عرضی دائر کرسکتے ہیں۔ جوڈیشیل سسٹم کی بات کریں تو اس فیصلے کے ایک دن پہلے ممبئی ہائی کورٹ نے بلقیس بانو اجتماعی آبروریزی کیس پر فیصلہ سنایا تھا۔ مارچ 2002ء میں حاملہ بلقیس کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کی گئی تھی۔ اس نے کہا کہ ایک عورت اور ایک ماں پر بیحد بربریت طریقے سے ظلم ڈھایا گیا اور اس فیصلے نے سچائی کی تصدیق تو کی اور عدلیہ نے ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی۔ بلقیس بانو سے گھناؤنے جرم کے معاملے میں قصورواروں کو پھانسی کی سزا کیوں نہیں دی گئی؟ یہ کارروائی عدالت کی چنندہ ہونے کے ٹرینڈ کو لیکر ہے جس کے چلتے بلقیس بانو سے گھناؤنے جرائم کے قصورواروں کو سزائے موت نہیں دی گئی حالانکہ قاعدے کے مطابق فیصلے جذبات سے نہیں حقائق اور ثبوتوں کی بنیاد پر قانون کے دائرے میں کئے جاتے ہیں۔ اسی بنیاد پر نربھیا اور بلقیس معاملہ پر کئے گئے فیصلوں میں فرق کیوں ہے؟ گودھرا کانڈ کے بعد 2002ء میں ہوئی اس واردات میں اپنے خاندان کے ساتھ ٹرک سے محفوظ ٹھکانے پر جا رہی پانچ ماہ کی حاملہ بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی آبروریزی ہوتی ہے۔ ٹھیک نربھیا کی طرح اس کے پانچ سال کی بیٹی اور ماں اور بھتیجے سمیت 14 لوگوں کو بے رحمانہ طور پر قتل کردیا جاتا ہے۔ ان کے پیٹ پر ترشول سے جے شری رام تک لکھ دیا جاتا ہے کیا یہ بھی ریئرایسٹ آف ریئر کرائم کے زمرے میں نہیں آتا؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نربھیا کانڈ کے بعد ہر سطح پر تبدیلی لانے کی کوشش ہوئی ہے، سماج کا نظریہ کم و بیش بدلہ ہے، لیکن عورتوں کے خلاف جرائم کم ہوگئے ہوں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ رات میں دہلی کی سڑکیں عورتوں کے لئے آج بھی اتنی محفوظ نہیں ہیں۔ بیشک حالات پہلے سے تھوڑا بہتر ضرور ہوئے ہیں۔ ایسے میں دور دراز علاقوں میں کیا حالات ہوں گے اس کا شاید ہی تصور کیا جاسکتا ہے۔ نربھیا کے قاتلوں کو عدالت نے سزا دے دی ہے لیکن ہم نربھیا کو سچی شردھانجلی تبھی دے پائیں گے جب لڑکیاں، عورتیں بے خوف ، بے روک ٹوک آ جاسکیں گے۔ عدلیہ نے اپنی ذمہ داری نبھائی اب باقی سماج کے سامنے ذمہ داری نبھانے کا وقت ہے۔ جب تک ہمارے سماج کی سوچ میں تبدیلی نہیں آتی نربھیا کانڈ سے شاید ہی ہم بچ سکیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟