نہ تھمتا عاپ میں طوفان سوال تو گرتے اعتماد کا ہے

میں نے اسی کالم میں کچھ دن پہلے لکھا تھا کہ مئی کا مہینہ عام آدمی پارٹی سرکار و تنظیم کے لئے بھاری پڑنے والا ہے۔ جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں کیجریوال سرکار اور خود وزیر اعلی تنازعات میں گھرتے جارہے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ فلاں الزام صحیح ہے یا نہیں سوال تو اس حکومت و اس کے اعتماد کا ہے۔ عام آدمی پارٹی اپنے ہی باغیانہ تیوروں کے چلتے بہت کم وقت میں آسمان پر پہنچ گئی تھی۔ سرکار کے قیام کے محض دو سال میں دہلی کی 70 میں سے66 سیٹیں پا کر ناقابل یقین حمایت کے ساتھ اقتدار میں آئی عاپ نے دیش اور دنیا کو چونکا دیا تھا مگر اسی حساب سے عاپ کا زوال ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ سرکار بنتے ہی پارٹی میں تضاد کا دور شروع ہوگیا ہے۔ اس نے ٹکراؤ کا راستہ اپنانا بہتر سمجھا۔ وہ چاہے مرکزی سرکار یا لیفٹیننٹ گورنر یا پھر دہلی سرکار میں کام کررہے افسران سے رہا ہو ۔ حالانکہ عاپ سرکار بار بار یہ دعوی کرتی رہی ہے کہ انہوں نے اگر ٹکراؤ کیا ہے تو مفاد عامہ کیلئے مول لیا ہے انہوں نے اپنے لئے ٹکراؤ نہیں کیا۔یہ ٹکراؤ کئی بڑے سوال کھڑے کررہا ہے جس کا آج دہلی کی جنتا جواب مانگ رہی ہے۔ پارٹی کی پوزیشن آج یہ ہوگئی ہے کہ اگر آج اسمبلی چناؤ ہوجائیں تو سرکار بنانے لائق بھی ممبر اسمبلی شاید جیتیں۔ اس کے لئے نہ تو جنتا قصوروار ہے اور نہ ہی مرکزی سرکار۔ اس کے لئے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے غلط لوگوں کو پارٹی کے ساتھ لیا ہوا ہے۔ آہستہ آہستہ عاپ سے کئی سینئر ساتھی الگ ہوگئے ہیں جن میں شانتی بھوشن، پرشانت بھوشن، یوگیندر یادو، اننت کمار سے لیکر کئی دیگر نام شامل ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ زمینی ورکر الگ ہوگئے ہیں۔ دہلی میں عاپ سرکار بننے کے دو سال کے دوران چار وزرا کو ہٹایا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ کئی ممبران اسمبلی پر الزام لگے ہیں۔ اس فہرست میں سب سے بڑا نام وزیر آبی وسائل و ٹورازم و کلچر کپل مشرا کا ہے۔ پھر نام آتا ہے مہلا و اطفال ترقی و سماج کلیان وزیر سندیپ کمار کا۔ حال ہی میں ماحولیات وغذا و سپلائی ایک اسٹنگ آپریشن میں پھنسنے کی وجہ سے ہٹے۔ جتیندر تومر فرضی ڈگری کیس میں پھنسنے کی وجہ سے ہٹے۔ جہاں تک عاپ ممبران اسمبلی کا سوال ہے تو شاید شرد چوہان، نریش یادو، امانت اللہ، سومناتھ بھارتی، منوج کمار، پرکاش جاٹوالے، دنیش موہنیہ، جگیدیش سنگھ، مہندر یادو، اکھلیش ترپاٹھی اور سریندر سنگھ پر کیش درج ہوئے ہیں اور یہ ضمانت پر باہر ہیں۔ آئیڈیا لوجی کے ٹکراؤ کو لیکر عاپ میں اٹھے طوفان کے درمیان چکرویو میں پھنسے کپل مشرا کی بھلے ہی وزیر کی کرسی چلی گئی ہو مگر یہ طوفان ابھی تھما نہیں ہے۔ ستیندر جین کے عہدے پر بنے رہنے کا شاید ہی عاپ میں ہنگامہ ختم ہو۔ وزیر اعلی اروند کیجریوال اور سرکار کے ایک طاقتور وزیر ستیندر جین کے خلاف سرکار کے ہی وزیر کپل مشرا کے ذریعے لگائے گئے کرپشن کے بڑے الزامات کے بعد سرکار کی ساکھ پر گہرا سنکٹ کھڑا ہوگیا ہے۔ پہلے سے ہی سی بی آئی چھاپوں اور کرپشن کے الزمات سے گھری سرکار بیشک مشرا کے الزامات کو بے بنیاد بتا رہی ہو لیکن بار بار اخلاقیت کا راگ رٹنے والے صاف اور کرپشن سے پاک حکومت کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے کیجریوال کے لئے خو د کو بے داغ ثابت کرنا اب بڑی چنوتی ہے۔ دہلی سرکار کے وزرا اور ممبران اسمبلی پر تمام الزامات پہلے بھی لگتے رہے ہیں لیکن یہ پہلا موقعہ ہے جب سیدھے وزیر اعلی اروند کیجریوال پر انگلی اٹھانے والا کوئی اور نہیں بلکہ ان کا ہی بھروسے مند کیبنٹ وزیر کپل مشرا ہے۔ کرپشن مخالف تحریک کے بل پر جن نائک بن کر ابھرے کیجریوال کے سامنے اب ان الزامات سے نکلنا خود کو پاک صاف ثابت کرنا ہوگا۔ لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ دہلی سرکار کے جن 7 معاملوں کی فائل سی بی آئی جانچ کے لئے ٹرانسفر کر گئے ہیں ان میں سے سابق سکریٹری ڈاکٹر ترون کے خلاف تیسری ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چار دیگر معاملوں میں اب تک ایف آئی آر درج ہوچکی ہے۔ دہلی سرکار کے سابق سکریٹری ڈاکٹر سیم سے پہلے دہلی سرکار کے وزیر صحت ستیندر جین کے او ایس ڈی کے طور پر کام کررہے سینئر ریزینڈینٹ ڈاکٹر نکونج اگروال کی تقرری کو لیکر سی بی آئی نے ایف آئی آر درج کی تھی۔ الزام یہ بھی ہے کہ امانت اللہ خاں نے وقف بورڈ کے چیئرمین کے عہدے کا بیجا استعمال کرتے ہوئے 30 لوگوں کی تقرری کی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ ان 3 ایف آئی آر کے علاوہ’ ٹاک ٹو اے کے ‘ ، وزیرصحت ستیندر جین کی لڑکی سمیا جین کا مہلا کلینک میں تقرری کا معاملہ، فیڈ بیک یونٹ اور پی ڈبلیو ڈی ٹھیکہ معاملہ میں ابتدائی جانچ کے معاملے بھی درج کئے جاچکے ہیں۔ تازہ الزامات کے بعد کیجریوال کے سامنے اپنی اور اپنے وزرا اور ممبران اسمبلی کی ساکھ بچائے رکھنا بڑی چنوتی ہوگی۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ عام آدمی پارٹی کی اندرونی رسہ کشی ابھی رکنے والی نہیں ہے۔ عام آدمی پارٹی کے کچھ بڑے نیتا کیجریوال کو گھیرنے کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں ایسے میں کیجریوال کے سامنے پیدا بحران اور الزامات کے بعد سرکار و پارٹی کے سامنے پیدا مشکلیں مستقبل قریب میں کم ہوتی نہیں دکھائی دے رہی ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ مئی کا مہینہ کیجریوال کے لئے چنوتی بھرا رہے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟