شیوراج کی سرجیکل اسٹرائک پر سیاست

بھوپال جیل سے فرار سمی کے 8 دہشت گردوں کو پولیس نے 8 گھنٹے بعدہی انکاؤنٹر میں مار دینے کی خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ پھیلنی بھی تھی کیونکہ یہ معمولی واقعہ نہیں تھا۔ایسے خطرناک دہشت گردوں کے پہلے بار جیل سے بھاگنے اور پھر انکاؤنٹر میں مارے جانے کی کارروائی تو ہونی تھی۔ سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ پولیس نے ان دہشت گردوں کا فرضی انکاؤنٹر کرکے مار گرایا ہے؟ سوال یہ بھی اٹھایا جارہا ہے کہ ایک ساتھ جیل سے اتنی تعداد میں آتنک وادی کیسے بھاگے؟10 کلو میٹر دور تک کیسے پہنچے؟ ایک ہی جگہ سبھی کیسے مل گئے؟ انہوں نے جینس اور جوتے، گھڑیاں کہاں پہنیں؟ پولیس کا دعوی ہے کہ ان کے پاس 3 چاقو اور دیسی کٹے ہی ملے؟ یہ سوال اپنی جگہ صحیح بھی ہے۔ جس طرح یہ سمجھنا مشکل ہے کہ پہلے بھی جیل سے فرار ہو چکے سمی کے یہ خطرناک دہشت گردوں کو ان کے شاطرساتھیوں کے ساتھ ایک ہی بیرک میں کیوں رکھا گیا؟ یہ ان کی بیوقوفی یا مجبوری ہوسکتی ہے، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ سمی کے دہشت گرد تھے۔بننور سے ملی اطلاع کے مطابق مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال سے بھاگنے کے بعد پولیس کے ساتھ مڈبھیڑ میں مارے گئے ممنوعہ گروپ سمی کے 8 دہشت گردوں میں سے 4 کافی عرصے تک بجنور میں رہ رہے تھے اور بم بنانے کی کوشش میں دھماکہ ہونے پر فرار ہوگئے تھے، جس جیل میں سمی کے خونخوار آتنک وادی قید ہوں اس کا سکیورٹی انتظام اتنا لچر کیسے تھا کہ ایک ہی سکیورٹی گارڈ کو گلا کاٹ کر آتنکی چادروں کو باند کر جیل پھلانگ گئے۔ بھولنا نہیں چاہئے کہ محض تین برس پہلے مدھیہ پردیش کے ہی کھنڈوا کی جیل سے سمی کے کچھ آتنک وادی ٹھیک اسی طرح فرار ہوگئے تھے جس میں7 افراد مڈبھیڑ میں مارے گئے، تین مشتبہ دہشت گرد بھی تھے۔ کانگریس سمیت کئی اپوزیشن پارٹیاں اس مڈ بھیڑ پر سوال اٹھا رہی ہیں لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جیل سے فرار ہونے کے بعد یہ آتنک وادی کئی گھنٹوں تک بھٹکتے رہے جس سے اس اندیشے سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی بڑی واردات کو انجام دے سکتے تھے۔ سمی کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ جسے ستمبر2001ء میں امریکہ میں ہوئے آتنکی حملے کے بعد دہشت گرد تنظیم کی شکل میں پابندی لگائی گئی تھی۔ سال2008ء میں اسے کچھ ڈھیل ضرور دی گئی تھی مگر اس کے بعد اس کا نام دیش بھر میں ہوئے کئی آتنکی حملوں اور واقعات میں آتا رہا ہے اور اس پر پھر سے پابندی پوری طرح سے لگادی گئی تھی جو اب بھی لاگو ہے۔ حالانکہ پتہ نہیں چل سکا کہ مڈ بھیڑ کی نوبت کیوں آئی؟ کیا وہ ہتھیار سے مسلح تھے اگر تھے تو کیا ان کے پاس بم ،بندوق تھیں؟ ان سوالوں کا جواب جتنی جلدی آئے اتنا ہی اچھا ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک مشتبہ آتنک وادیوں کی موت پر سیاسی روٹیاں سینکنے سے بچا نہیں جاسکتا۔ ویسے ایسے واقعات پر کسی بھی طرح کے سیاسی الزام تراشی کرنے سے بہتر ہے کہ پہلے قومی سلامتی ایجنسی (این آئی اے) جسے جانچ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، کی رپورٹ کا انتظارکیا جائے۔ دیش سے بھاگے مشتبہ دہشت گردوں کے ساتھ ہوئی مڈ بھیڑ کی سچائی کچھ بھی ہو لیکن یہ صاف ہے کہ وہ بہت خطرناک تھے۔ اس کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پابندی کے دور میں ہی سمی نے خود کو نہ صرف انڈین مجاہدین میں تبدیل کر لیا تھا بلکہ دائرہ بھی بڑھا لیا تھا۔بھوپال میں ڈھیر کئے گئے8 میں 3 کچھ برس پہلے اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ سنسنی خیز طریقے سے کھنڈوا جیل سے فرار ہوئے تھے۔ وہاں سے بھاگنے کے بعد انہوں نے دیش کے کئی حصوں میں کئی آتنکی وارداتوں کو انجام دیا تھا۔ انہوں نے بم دھماکے کئے، بینک لوٹے،اور دہشت گردی انسداد دستے کے پولیس ملازمین کو قتل کیا۔ وہ جہادیوں کی بھرتی کررہے تھے۔ قومی سطح پر کئی نیتاؤں کا قتل کرنے کے فراق میں تھے۔ یہ بھی صاف ہے کہ انتہائی محفوظ مانی جانے والی بھوپال سینٹرل جیل میں ایسے خطرناک دہشت گردوں پر جتنی اور جس طرح کی نگرانی رکھی جانی چاہئے تھی وہ نہیں رکھی گئی۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر دہشت گردوں کو عدالت سزا دے سکتی ہے لیکن سزا کٹے گی تو جیل میں ہے۔ ایسے میں بھوپال سینٹرل جیل کا یہ واقعہ خوف پیدا کرنے والا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!