اترپردیش اسمبلی چناؤ میں وکاس کا اشو حاشیے پر

سماجوادی پارٹی کی اندرونی رسہ کشی یا نورا کشتی کہیں ، نے صوبے میں فی الحال چناؤ میں وکاس کے اشو کو حاشیے پر لادیا ہے۔ پچھلے دو مہینے میں سپا کی اندرونی کھینچ تان سرخیوں میں ہے۔ چناؤ اتنے قریب آنے کے باوجود اب بھی چاچا بھتیجہ، والد بیٹا کی باتیں زیادہ ہورہی ہیں۔ اسمبلی چناؤ جیسے جیسے قریب آرہا ہے سیاسی پارٹیوں کا نظریہ بھی بدل رہا ہے۔ یوپی میں پارٹیاں بھلے ہی وکاس کے اشو پر چناؤ میں اترنے کا دم بھر رہی ہوں لیکن جس طرح صوبے کی سرگرمیاں جاری ہیں اسے دیکھتے ہوئے صوبے میں ذات ،مذہب اور جذباتی اشو پر ہی سیاسی گھمسان کے آثار زیادہ نظر آرہے ہیں۔ وکاس کا اشو لگتا ہے ایک بار پھر حاشیے پر رہنے کا امکان ہے۔ 2017ء میں یوپی کا اقتدار حاصل کرنے کی کوششوں میں کوئی پارٹی کثر نہیں چھوڑ رہی ہے۔ چناؤ میں کامیابی کے معنی صرف یوپی کے اقتدار پر قابض ہونے تک محدود نہیں ہیں۔ سبھی پارٹیاں جانتی ہیں کہ اس چناؤ میں جیت سے نہ صرف راجیہ سبھا میں اس کی طاقت بڑھے گی بلکہ 2019ء کے لوک سبھا چناؤ کے لئے بھی بڑی بنیاد ہوگی۔ خاندانی رسہ کشی کا شکار سماجوادی پارٹی کے لئے جہاں آنے والا اسمبلی چناؤ سخت امتحان ہے وہیں بھاجپا کے لئے بھی یہ کم اہم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ایم مودی سمیت ان کے وزراء کی پوری فوج ماحول تیار کرنے میں لگ گئی ہے۔ کانگریس اور بسپا بھی پیچھے نہیں ہیں۔ راہل گاندھی نے کسان یاترا سے چناؤ مہم کا آغاز توکردیا۔ مایاوتی بھی ووٹروں کو اپنے پالے میں لانے کے لئے میدان میں اتر پڑی ہیں۔ وکاس کی بات کرنے والی پارٹیاں جس طرح سے ذات اور مذہبی تجزیوں کا فائدہ اٹھانے میں لگی ہیں اس وکاس کا اشو حاشیے پر رہے کے پورے آثار ہیں۔ بھگوا خیمہ جہاں پھر سے رام مندر، کامن سول کوڈ اور تین طلاق جیسے اشو کو زندہ کرکے ہندوتو کارڈ کھیلنے میں لگا ہے وہیں سپا، بسپا اور کانگریس برادریوں کی گول بندی اور خاص کر مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہیں۔ دو مہینے پہلے تک چناوی تیاریوں میں سپا دیگر پارٹیوں کے مقابلے کافی آگے چل رہی تھی۔ چناؤ سروے میں بھی اس کی پوزیشن بہتر بتائی جارہی تھی مگر یکدم نیچے آگئی۔ خاندانی لڑائی نے سپا کی ہوا فی الحال نکال دی ہے۔ جہاں دوسری پارٹیاں اپنی اپنی پارٹیوں کے ووٹروں پر پکڑ مضبوط کرنے میں لگی ہوئی ہیں وہیں سپا کے نیتا آپس میں ایک دوسرے سے نمٹنے میں الجھے ہوئے ہیں۔ چناوی مہم کے ذریعے دونوں سماجوادی پارٹی اور صوبے میں وکاس کا اشو کافی پیچھے چلا گیا ہے۔ حالانکہ وزیر اعلی اکھلیش یادو اب بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ چناؤ وکاس کے اشو پر ہی لڑیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!