کیا ہم پاکستان کے ساتھ جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں
جموں و کشمیر سرحد پر ان دنوں خوفناک لڑائی چل رہی ہے۔ سرجیکل اسٹرائک سے بوکھلائی پاکستانی فوج اور جہادی تنظیم اب شہری عوام پر گولہ باری کرنے لگے ہیں۔ گاؤں کے گاؤں خالی ہورہے ہیں۔ ایک دن میں 8 شہریوں کا مارا جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ حالت کتنی سنگین ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ پچھلے20 برسوں میں یہ پہلا واقعہ ہے جہاں ایک دن میں اتنے شہری مارے گئے ہیں۔ پاکستان کی بوکھلاہٹ کا اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ بھارت کے ذریعے 29 ستمبر کی رات سرجیکل اسٹرائک کے بعد پاکستان کے ذریعے جنگ بندی کی 63 بار خلاف ورزی ہوچکی ہے جس میں 12 عام شہری موت کے شکار ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہمارے جوان اس کا منہ توڑ جواب نہیں دے رہے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے مسلسل سرحد پار سے ہورہی فائرنگ کا بی ایس ایف کی طرف سے بھی معقول جواب دیا جارہا ہے۔ پچھلے11 دنوں میں پاکستان لگاتار جنگ بندی توڑ رہا ہے۔ بی ایس ایف نے پاکستان کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے 11 دنوں میں پانچ ہزار مورٹار داغے ہیں جبکہ35 ہزار سے زیادہ گولیاں چلائی گئیں ہیں۔ بی ایس ایف نے پاکستانی فائرننگ کے جواب میں 3 ہزار لانگ رینج کے مورٹار اور 2 ہزار شارٹ رینج کے مورٹار داغے ہیں۔ لانگ رینچ کے موٹار کی رینچ 5سے6 کلو میٹر جبکہ شارٹ رینج 900 میٹر تک ہوتی ہے۔ ا س کے علاوہ بی ایس ایف نے ایم ایم جی ، ایل ایم جی اور رائفل جیسے ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔38 ہزار سے زیادہ گولیاں داغی گئی ہیں۔ بی ایس ایف کے مطابق زیادہ تر کراس بارڈر فائرننگ جموں کے سیکٹر میں ہورہی ہے۔ پاکستانی رینجرز خاص کر رات میں فائرننگ کررہے ہیں۔یہ فائرننگ آتنکی گھس پیٹھ کرانے کی کوشش بھی ہے۔ بی ایس ایف کی جوابی کارروائی میں اب تک کم سے کم 15 پاکستانی فوجیوں کے مارے جانے کا دعوی کیا جارہا ہے۔ 19 اکتوبر کے بعد مسلسل جاری پاکستانی فائرننگ میں بی ایس ایف کے 3 جوان بھی شہید ہوئے ہیں۔ پاکستان میں 11 دنوں کے اندر بین الاقوامی سرحد پر 63 بار جنگ بندی توڑی ہے۔ بی ایس ایف کے اے ڈی جے (ویسٹرن سیکٹر) ارون کمار نے بتایا کہ بھارتی فوجیں بھی پاکستانی فوج کو کرارا جواب دے رہی ہیں۔ پاک گولہ داغنے کے ساتھ مورٹار سے گولے برسا رہا ہے۔ کئی گاؤں میں تو کچھ گھروں کے اندر 100 کے آس پاس گولے گرنے کی بات سامنے آئی ہے۔ بستیوں پر غیر اعلانیہ حملے کا جواب دینا مشکل ضرور ہوتا ہے ۔ سرکار کی طرف سے لگاتار اعلی سطحی میٹنگوں میں حالات کا جائزہ لیا جارہا ہے ۔ ہمارے سامنے سوال اب یہ ہے کہ ایسا کب تک چلے گا۔ تصور کیجئے جن لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر الگ رہنے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے ان پر کیا بیت رہی ہوگی؟ کیونکہ گاؤں میں زیادہ تر کسان ہیں اس لئے ان کی فصلیں بھی تباہ ہورہی ہیں۔ مویشیوں کے لئے مشکل کھڑی ہوگئی ہے۔ کیا ہم آہستہ آہستہ بھرپور جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں