پاکستان کا پرانا پینترا پہلے جاسوسی پھر سینا جوڑی
جموں و کشمیر میں سرحد پار سے مسلسل جاری فائرننگ کے درمیان جمعرات کو دہلی میں واقع پاکستان ہائی کمیشن کے ایک افسر کو جاسوسی کرنے کے الزام میں پکڑا گیا۔ بھارت میں پاکستانی اور پاکستان میں ہندوستانی جاسوس کا پکڑا جانا کوئی نئی واردات نہیں ہے۔ ہر دو چار مہینوں میں ایسے واقعات ہو ہی جاتے ہیں لیکن دونوں دیشوں کے درمیان کشیدگی کے چلتے ایسی سرگرمیاں بیحد خطرناک ہوسکتی ہیں۔ یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ جب پاکستان کے کسی ڈپلومیٹ کو جاسوسی کے الزام میں دیش سے باہر نکالا گیا ہو۔ پہلے بھی پاک حکام اور ملازمین کو سسونا نان گراٹا یعنی دیش میں ناجائز شخص کے تحت واپس بھیجا جاچکا ہے۔ تاریخ میں کئی معاملے درج ہیں جب پاکستان نے ردعمل میں پاک حکام کو واپس بھیجا۔ راجدھانی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں کام کررہے ڈپلومیٹ محمود اختر کو جاسوسی کے الزام میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ راجستھان کے دو باشندوں کے ساتھ سرحد اور جی ایس ایف سے متعلق انتہائی خفیہ دستاویزات کی سودے بازی کررہا تھا۔ یعنی صاف ہے کہ اڑی حملے کے بعد ہندوستانی سکیورٹی فورسز کی کنٹرول لائن کے پار آتنکی کیمپوں پر کی گئی سرجیکل اسٹرائک کی کارروائی اور ڈپلومیٹک سطح پر پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کے باوجود اسی پڑوسی ملک کے بھارت کے خلاف سازش رچنے والی آتنکی مشینری کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ لگتا ہے یقینی طور سے یہ باعث تشویش بات ہے کہ ان کے ساتھ ہی کچھ ہندوستانیوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جن کے کردار کے بارے میں جانچ سے پتہ چلے گا۔ ظاہر ہے کہ سرحد پر دراندازی کی سرگرمیاں مقامی لوگوں کی ملی بھگت کے بغیر نہیں ہو سکتیں۔ پاک فوج اور آئی ایس آئی اس کام کو بخوبی انجام دیتی ہیں۔ آئی ایس آئی کی سرگرمیوں کو چلانے کیلئے پاکستانی ہائی کمیشن کے افسروں سے لیکر غیر سرکاری سطح پر لوگ سرگرم رہتے ہیں۔ دیش بدر کیا گیا پاکستانی ڈپلومیٹ افسر محمود اختر بلوچستان میں تعینات پاک فوج کا حولدار بتایا جاتا ہے۔ اس کی کام کی صلاحیت کو دیکھ کر اسے آئی ایس آئی نے اپنے کام میں لگایا تھا۔ آئی ایس آئی کی یہ خاصیت رہی ہے اور اسی کے بوتے پر وہ دہشت گردی کو ایک ہتھیار بنا کر کئی ملکوں میں عدم استحکام پیدا کرتے ہیں۔ دیش کی سلامتی سے جڑے اس معاملے میں مرکز کی سخت پالیسی کے چلتے اس بات کیلئے ضرور باآور ہوا جاسکتا ہے کہ اس سازش میں جو لوگ بھی شامل ہوں گے وہ بخشے نہیں جائیں گے۔ پچھلے تین برسوں کے دوران46 پاکستانی ایجنٹوں کو دیش کے مختلف حصوں سے گرفتار کیا جاچکا ہے۔ تازہ معاملہ اس لئے بھی سنگین ہے کیونکہ پہلی بار اتنے واضح طور پر پاک ہائی کمیشن کا بھارت کے خلاف کردار اجاگر ہوا ہے ورنہ ابھی تک یہ علیحدگی پسندوں کو پناہ دینے اور ان کی میزبانی کرنے تک محدود رہا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں