عدلیہ اور ایڈمنسٹریٹیوسروس آمنے سامنے

کولیجیم کی سفارشوں کے باوجود مرکزی سرکار کی طرف سے ہائی کورٹ ججوں کی تقرری میں تاخیر پر سپریم کورٹ نے زبردست ناراضگی ظاہر کی ہے ۔ اس ناراضگی کو کچھ حد تک سمجھا جاسکتا ہے۔ ہمارے یہاں کی عدالتوں میں ججوں کی کمی اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اس وجہ سے مقدموں کی سماعت میں برس اور دہائیاں لگ جاتی ہیں۔مرکز سے خفا سپریم کورٹ نے جمعہ کو یہاں تکپوچھ لیا کہ کیا حکومت دیش میں جوڈیشیل سسٹم پر تالے جڑنا چاہتی ہے؟ کیا اس کا ارادہ پورے عدلیہ سسٹم کو تباہ کرنے کا ہے؟ عدلیہ اور انتظامیہ کے موجودہ ڈیڈ لاگ کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ کولیجیم سسٹم پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو اصولی طور پر منظور کرنے کے باوجود سرکار عام طور پر اسے ماننے کو تیار نہیں دکھائی پڑتی۔ سرکار نے تقرری سسٹم کے دستاویز پر رضامندی نہ بھرنے کے سبب کولیجیم کی طرف سے 9 ماہ پہلے بھیجے گئے 77 ناموں میں سے ابھی تک18 نام ہی منظور کئے ہیں۔ سپریم کورٹ بار بار سرکار کوآگاہ کررہا ہے کہ کارروائی دستاویز پر اگر رضامندی نہیں بنتی تو کیا سرکار تقرریوں کو روکے رکھے گی؟ دراصل مرکزی سرکار نے جوڈیشیل تقرریوں میں شفافیت کیلئے پچھلے سال کولیجیم سسٹم کی جگہ جوڈیشیل تقرری کمیشن بنایاتھا لیکن سپریم کورٹ نے اسے اس بنیاد پر مسترد کردیا کہ جج چننے کے نظام میں سرکار کا رول جوڈیشیری سے زیادہ ہوجائے گا کیونکہ سپریم کورٹ کسی کو جواب طلب کرسکتی ہے اور اسے پھٹکار لگا سکتی ہے۔ اس لئے آئے دن کوئی نہ کوئی اس کی پھٹکار کے نشانے پر ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آ ئینی اداروں کے مقابلے اس کی جوابدہی کم ہوجاتی ہے؟ اسے سوال کرنے کے ساتھ سوال سننے کا بھی حق چاہئے اور ان کا جواب بھی دینا چاہئے۔ وہ اس سے اچھی طرح باآور ہیں کہ جج صاحبان کی تقرری کے معاملے میں ڈیڈ لاگ کی ایک وجہ میمورنڈم آف پروسیجر کو قطعی شکل نہیں دیا جانا بھی ہے۔ میمورنڈم آف پروسیجر ججوں کی تقرری عمل سے متعلق ہے اور اس کی ضرورت اس لئے بھی پڑی کیونکہ ججوں کی تقرری سے متعلق آئینی ترمیم قانون کو خارج کرنے کے بعد خود سپریم کورٹ نے یہ مان لیا کہ کولیجیم سسٹم میں کچھ خامیاں ہیں اور ان خامیوں کو درست کرنے کیلئے اس نے ہی سرکار کو میمورنڈم آف پروسیجر بنانے کی ہدایت دی تھی جب سرکار نے اسے اس حساب سے تیار کردیا کہ ججوں کی تقرری کی عمل شفاف بنے تو سپریم کورٹ کو اس کے قواعد پر کوئی اعتراض نہ ہو تب سے یہ معاملہ لٹکا پڑا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ججوں کی موجودہ تعداد ضرورت سے 60 فیصدی کم ہے جو مقدموں کے فیصلوں میں دیری کی بڑی وجہ ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ پہلے جج زیادہ تھے اور ان کے لئے عدالتوں میں چیمبر نہیں تھے۔ آج ججوں کی کمی کے سبب عدالتوں میں تالے لگے رہتے ہیں۔ ابھی مدراس ، کیرل، چنڈی گڑھ اور جھارکھنڈ کی ہائی کورٹس میں 26 ججوں کی تقرری جلد ی سے جلدی ہونی ہے، لیکن سرکار اس پر زیادہ سنجیدگی نہیں دکھارہی ہے۔ صاف طور پر موجودہ سرکار اور جوڈیشیری کے رشتے اسی طرح بگڑ رہے ہیں، جس طرح سے اندرا گاندھی کے عہد میں بگڑ گئے تھے اور اس کا کتنابڑا خمیازہ دیش کو بھگتنا پڑا تھا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دونوں فریق مل بیٹھ کر رضامندی سے اس مسئلے کو نپٹائیں۔ اس معاملے میں اٹارنی جنرل کے ذریعے عدالت کو دی گئی یقین دہانی کے بعد کیا امید کریں کہ ججوں کی خالی پڑی اسامیوں کو پر کرنے کی سمت میں سرکار بلا تاخیر قدم اٹھائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!